اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں آرام حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکرگزاری سے کام نہیں لیتے۔
[٨٠] ہر جاندار میں کام اور آرام کا خود کار نظام :۔ رات کو نہ سورج کی گرمی ستاتی ہے اور نہ ہی سورج جیسی تیز روشنی ہوتی ہے۔ تاریکی اور مناسب حد تک ٹھنڈک یہ دونوں باتیں نیند اور آرام کرنے کے لئے ساز گار ہیں۔ اور دن کو کام کاج کے لئے روشن بنایا کہ اس میں کسی مصنوعی روشنی کے بغیر ہی کام چل سکتا ہے۔ رات اور دن کو اللہ تعالیٰ نے دلیل توحید کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دن اور رات سورج کے اور زمین کے درمیان ایک انتہائی باقاعدہ نظام کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سورج اور اس زمین کا خالق، مالک اور ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی ایک ہی ہوسکتی ہے۔ اگر ان سیاروں کے مالک الگ الگ دیوتا ہوتے جیسا کہ مشرکوں کا خیال ہے تو یہ دن رات کا نظام کبھی باقاعدگی کے ساتھ چل نہیں سکتا تھا۔ پھر اسی رات اور دن کے نظام میں اور رات کو آرام کرنے اور دن کو کام کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حیران کن عجائبات ہیں۔ دن کو کام کرتے وقت انسان کے بے شمار خلیے ضائع اور تباہ ہوتے رہتے ہیں۔ رات کو جب انسان آرام کرتا ہے تو نیند کی حالت میں ان ضائع شدہ خلیوں کی جگہ دوسرے نئے خلیے پیدا ہوجاتے ہیں۔ اور جب یہ کام ٹھیک طور پر مکمل ہوچکتا ہے تو انسان جاگ اٹھتا ہے۔ گویا اس کا آرام کا وقت پورا ہوگیا۔ پھر وہ نئے سرے سے تازہ دم ہو کر صبح کو پھر سے کام کاج کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا یہ نظام خود کار ہے۔ اگر انسان کام کرنے کے بعد آرام نہ کرے تو نیند اسے جہاں بھی ہو دبا لیتی ہے اور اسے اضطراراً آرام کرنا پڑتا ہے۔ اگر پھر بھی انسان اپنے اس فطری تقاضے کو پورا نہ کرے یا پورا کرنے میں کوتاہی کرے تو انسان کی صحت تباہ ہوجاتی ہے۔ [٨١] یعنی اللہ تعالیٰ کی تو انسان پر اس قدر عنایات ہیں۔ مگر انسان ایسا ناشکرا اور نمک حرام واقع ہوا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کے شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔