وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ ۗ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
اللہ نے یہ سب انتظام صرف اس لئے کیا تھا تاکہ تمہیں خوشخبری ملے، اور اس سے تمہارے دلوں کو اطمینان نصیب ہو، ورنہ فتح تو کسی اور کی طرف سے نہیں، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جو مکمل اقتدار کا بھی مالک ہے، تمام تر حکمت کا بھی مالک۔
[١١٥] غزوہ بدر میں مسلمانوں کی چار طرح سے مددالٰہی :۔ میدان بدر میں اللہ نے جو نزول ملائکہ کی تمہیں خوشخبری دی تھی وہ تو محض اس لیے تھی کہ تمہارے دل مضبوط ہوجائیں اور تم پورے وثوق کے ساتھ جم کر لڑائی کے میدان میں اترو اور فرشتوں پر ہی کیا منحصر ہے مدد کی جو بھی صورت ہو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ چنانچہ بدر کے میدان میں اللہ نے چار طرح سے مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی۔ مثلاً (١) اللہ نے ہوا کا رخ کفار کے لشکر کی طرف موڑ دیا اور ریت نے اڑ اڑ کر ان کے لشکر کو بدحال بنا دیا۔ (٢) بارش کا نزول جس سے کفار کے پڑاؤ میں تو پھسلن اور دلدل مچ گئی۔ جبکہ مسلمانوں کے پڑاؤ میں ریت جم کر بیٹھ گئی۔ نیز انہیں استعمال کے لیے وافر پانی میسر آگیا۔ (٣) فرشتوں کا نزول۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ نے بدر کے دن فرمایا : ’’یہ جبریل آن پہنچے اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے، لڑائی کے ہتھیار لگائے ہوئے۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی، باب شہود الملائکة بدرا) نیز حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جبریل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے : ’’آپ اہل بدر کو کیسا سمجھتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :’’ سب مسلمانوں سے افضل‘‘ یا کوئی ایسا ہی کلمہ کہا : جبریل علیہ السلام کہنے لگے : ’’اسی طرح وہ فرشتے جو غزوہ بدر میں حاضر ہوئے تھے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔‘‘ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) اور (٤) مسلمانوں کی مدد کا چوتھا طریقہ یہ تھا کہ کفار کو مسلمان مجاہدین کی تعداد اصل تعداد سے دوگنی نظر آنے لگی تھی۔