أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ وَكَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ ۚ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابٍ
جوراستے آسمانوں تک پہنچانے والے ہیں، پھر موسیٰ کے خدا کی طرف جھانک سکوں، اور واقعہ یہ ہے کہ میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں اس طرح فرعون کے لیے اس کی بدعملی مزین کردی گئی اور اسے سیدھی راہ سے روک دیا گیا اور فرعون کی چال ہی تباہ برباد ہونے والی تھی
[٥٠] ہامان کو بلند عمارت بنانے کے لئے کہنا :۔ فرعون نے اس مرد مومن کی باتوں کا کچھ اثر نہ لیا اور نہایت متکبرانہ شان سے اپنے وزیر ہامان سے کہنے لگا : ہامان! ایک بلند عمارت تعمیر کراؤ۔ تاکہ میں یہ تو دیکھوں کہ جس الٰہ کی موسیٰ علیہ السلام بات کرتا ہے وہ ہے کہاں اور کتنی بلندی پر رہتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے سورۃ قصص کی آیت نمبر ٣٨ کا حاشیہ نمبر ٥٠ دیکھئے) [٥١] یعنی فرعون جو بھی بنی اسرائیل پر ظلم ڈھا رہا تھا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت میں جو بھی ہتھکنڈے استعمال کر رہا تھا وہ سب اسے اچھے ہی لگتے تھے اور وہ انہیں اپنی حسن تدبیر پر محمول کرتا تھا۔ برے کام کرتے کرتے اس کی کچھ ایسی مت ماری گئی تھی اور ایسی مضحکہ خیز حرکتیں کرنے لگا تھا جس کے بعد اس کے راہ راست پر آنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ [٥٢] فرعون کی وہ مکارانہ چالیں جن میں وہ خود گھر گیا :۔ فرعون دل سے یہ سمجھ چکا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور یہ اسے پہلے دن ہی یقین ہوگیا تھا۔ مگر وہ اپنے اقتدار اور اپنی سلطنت کو بچانے کے لئے ہمیشہ مکارانہ چالیں ہی چلتا رہا اس کی پہلی چالاکی یہ تھی کہ اس نے لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہا کہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزات بس جادو کے کرشمے ہی ہیں۔ اور اپنی اس چال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جادوگروں سے مقابلہ کا ڈھونگ رچایا۔ پھر جب جادوگروں نے یہ تسلیم کرلیا کہ موسیٰ علیہ السلام جو کچھ لائے ہیں وہ جادو نہیں بلکہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ معجزات ہیں اور انہوں نے بھرے مجمع میں اپنے ایمان کا اعلان بھی کردیا تو لوگوں کو ان اثرات سے بچانے کے لئے جادوگروں پر یہ الزام لگا دیا کہ تم تو خود اندر سے موسیٰ علیہ السلام سے ملے ہوئے ہو وہ تمہارا گرو ہے اور تم اس کے چیلے ہو اور میں تمہیں ایسی اور ایسی سزائیں دوں گا۔ لیکن فرعون کی اس دھمکی کا بھی کچھ اثر نہ ہوا۔ اور لوگ چوری چھپے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاتے رہے پھر اس نے اعلان کروایا کہ جو لوگ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں گے میں ان کے بچوں کو قتل کردوں گا۔ پھر اس قضیہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے منصوبے بنانے لگا۔ انہی ایام میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ہجرت کا حکم ہوگیا۔ اب اگر وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب نہ کرتا تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ بنی اسرائیل اس کے ہاتھ سے نکل جاتے۔ وہ خود تو نہ غرق ہوتا اور نہ اس کی سلطنت ہاتھ سے جاتی مگر اس کی تدبیر اسے اس کی تباہی کی طرف ہی دھکیلتی رہی۔