سورة آل عمران - آیت 125

بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہاں ! بلکہ اگر تم صبر اور تقوی اختیار کرو اور وہ لوگ اپنے اسی ریلے میں اچانک تم تک پہنچ جائیں تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیج دے گا جنہوں نے اپنی پہچان نمایاں کی ہوئی ہوگی (٤٣)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٤] ابھی لڑائی شروع بھی نہ ہوئی تھی کہ یہ افواہ پھیل گئی کہ کرزبن جابر بہت بڑی کمک لے کر مشرکین کی مدد کے لیے آرہا ہے۔ اس افواہ سے مسلمانوں میں مزید اضطراب پھیل گیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا اگر کفار کو ہنگامی طور پر کمک مل جانے سے ڈرتے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے فرشتوں کی کمک میں اضافہ کر دے گا۔ لہذا صبر و استقامت سے کام لو اور کافروں سے نہیں بلکہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ بعض مفسرین نے تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں سے مدد کے وعدہ کو جنگ بدر سے متعلق کیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بیان آیت نمبر ١٢٣ کے بیان کے ساتھ مسلسل ہے۔ ہوا یہ تھا۔ جنگ بدر میں قلیل تعداد اور کمزور اور نہتے مسلمانوں کو ڈھارس بندھانے کی خاطر اللہ نے ایک ہزار فرشتے میدان بدر میں بھیج دیے۔ جیسا کہ سورۃ انفال کی آیت ﴿فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗیِٕکَۃِ مُرْدِفِیْنَ ﴾ سے معلوم ہوتا ہے۔ پھر جب جنگ بدر میں ہی یہ مشہور ہوا کہ مکہ سے مزید کمک پہنچ رہی ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں ہم تین ہزار یا پانچ ہزار فرشتے بھیج دیں گے۔ پھر چونکہ کافروں کے لیے مکہ سے کوئی مزید کمک نہ پہنچی تو اور فرشتے بھی نہ آئے۔ البتہ ایک ہزار فرشتوں کی میدان بدر میں شرکت قرآن پاک سے ثابت ہے۔ نیز اس کی صحیحین اور دوسری کتب احادیث میں اس قدر روایات مذکور ہیں جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں۔ لیکن جنگ احد میں فرشتوں کی کمک صحیح روایات سے ثابت نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہی توجیہ زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ معتزلہ کامیدان بدرمیں بھی نزول ملائکہ سےانکار اور ان کی تاویلات :۔اس سب باتوں کے علی الرغم معتزلہ اور ان کے جانشینوں نے بدر میں فرشتوں کی آمد سے انکار کیا ہے۔ یہ لوگ احادیث کو درخور اعتناء سمجھتے ہی نہیں اور قرآن کی آیات کی یہ تاویل کرلیتے ہیں کہ قرآن میں تو کہیں نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فی الواقعہ فرشتے بھیجے تھے بلکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کیا ہے کہ جنگ کے وقت رسول نے مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی خاطر یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسا بھی کرسکتا ہے۔ پھر اس کے بعد جو عقلی دلائل دیتے ہیں وہ اس قسم کے ہیں کہ کسی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے تو ایک فرشتہ بھی کافی ہے پھر ہزاروں کی کیا ضرورت تھی؟ یا یہ کہ اگر فرشتوں سے ہی کام لینا تھا تو صرف ملک الموت ہی کافی تھا، جو سب کی روحیں قبض کرلیتا بلکہ اگر ایسا ہی معاملہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے کافر پیدا ہی کیوں کئے؟ یا یہ کہ فرشتے اگر اجسام کثیفہ تھے تو ضرور سب کو نظر آتے، حالانکہ ایسا نہیں ہوا اور اگر اجسام لطیفہ تھے تو ان میں طاقت ہی کیا تھا جو کسی کو قتل کرتے، وغیر ذالک من الخرافات ان دلائل میں جتنا وزن ہے وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ہمیں ان کے جواب میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے، جو اللہ کی حکمت بالغہ کے منافی ہیں اور ایسے اعتراضات تو شریعت کی ایک ایک بات پر کئے جاسکتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان لوگوں کا اللہ اور اللہ کے کلام پر ایمان کس قسم کا ہے؟