إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا ۖ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو ان کو برا لگتا ہے، اور اگر تمہیں کوئی گزند پہنچے تو یہ اس سے خوش ہوتے ہیں، اگر تم صبر اور تقوی سے کام لو تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کے ( علم اور قدرت کے) احاطے میں ہے۔
[١٠٩] اگر تمہیں کوئی خوشی کا موقعہ میسر آئے تو یہ جل بھن جاتے ہیں اور کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ تو کیا پھر ایسے لوگوں کی دوستی سے پرہیز ہی بہتر نہیں؟ بس تم صبر سے کام لو۔ ان کی سازشیں اور پراپیگنڈے تمہارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود ان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ آیت نمبر ١١٨ سے لے کر ١٢٠ تک ٣ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کافروں سے دوستی گانٹھنے کی ممانعت کے لیے جو وجوہات بیان فرمائی ہیں وہ مختصراً درج ذیل ہیں۔ ١۔ وہ تمہارے درمیان، خرابی، بگاڑ اور فساد پیدا کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے اور ان کی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ تم میں تفرقہ و انتشار اور بغض و عداوت پیدا ہوجائے۔ ٢۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی ارضی و سماوی آفت اور مصیبت میں پھنس جاؤ۔ ٣۔ ان کے منہ سے کچھ بے اختیار ایسی باتیں نکل جاتی ہیں جو ان کے دلوں میں پکنے والے مواد کا پتہ دے جاتی ہیں۔ ٤۔ تم ان سے محبت رکھتے ہو جبکہ وہ تم سے دشمنی رکھتے ہیں، حالانکہ تم ان کی کتاب تورات پر ایمان لاتے ہو اور وہ تمہاری کتاب قرآن سے منکر ہیں اور اس کا منطقی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ تم سے دشمنی رکھتے اور تم ان سے دوستی رکھتے، لیکن یہاں الٹی گنگا بہائی جارہی ہے۔ ٥۔ اگر تمہیں کوئی بھلائی حاصل ہو تو اس سے وہ جل بھن جاتے ہیں اور اگر تمہیں تکلیف پہنچے تو اندر ہی اندر پھولے نہیں سماتے۔ ٦۔ اگر وہ تم سے کوئی خیر خواہی کی بات بھی کریں تو وہ منافقت پر مبنی ہوتی ہے۔ لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر تمہیں ان سے دوستی نہ رکھنا چاہیئے اور راز بتانا تو بڑی دور کی بات ہے۔