اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے جس کے مرنے کا وقت نہیں آیا اس کی روح سوتے میں قبض کرلیتا ہے پھر ان روحوں کو جن پر موت کا حکم صادر کرچکا ہے ان کو روک لیتا ہے اور دوسری روحیں ایک وقت مقررہ کے لیے بھیج دیتا ہے بلاشبہ اس میں غوروفکر سے کام لینے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں (١٠)۔
[٥٨] اس آیت سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے بالفاظ دیگر اس میں مندرجہ ذیل نشانیاں موجود ہیں۔ ١۔ روح حیوانی اور روح نفسانی :۔ روح کی دو قسمیں ہیں۔ ایک روح حیوانی جس کا تعلق دوران خون سے ہوتا ہے۔ اور یہ نیند کی حالت میں بھی جسم کے اندر موجود رہتی ہے۔ دوسری روح نفسانی یا نفس ناطقہ ہے جو نیند یا خواب کی حالت میں بدن کو چھوڑ کر سیر کرتی پھرتی ہے اور ہر طرح کے واقعات سے خواب میں ہی دوچار ہوتی رہتی ہے۔ اسی روح کو اللہ تعالیٰ مخاطب فرماتے ہیں۔ دوام روح نفسانی کو ہے :۔ اور اسی روح کو دوام ہے یہ روح جب بدن کو چھوڑ دیتی ہے تو انسان کے حواس خمسہ میں نمایاں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ نیند کے دوران انسان کی قوت باصرہ، لامسہ اور ذائقہ کی کارکردگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قوت سامعہ بھی ماند پڑجاتی ہے۔ ہاں اگر غل غپاڑا ہو یا کوئی دوسرا آدمی سوئے ہوئے کو بلند آواز سے پکار کر جگا دے تو روح نفسانی دوبارہ اپنے جسم میں لوٹ آتی ہے۔ اس روح کو اپنے جسم سے عشق کی حد تک محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہی جسم اس روح کی آرزؤں کی تکمیل کا ذریعہ بنتا ہے۔ ٢۔ عذاب قبر کی ماہیت :۔ ان دونوں قسم کی روحوں کا آپس میں نہایت گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک ہی اکائی کے دو جزو ہوتے ہیں۔ روح نفسانی اگر خواب میں کسی بات پر یا کسی چیز سے لطف اندوز ہوتی ہے تو انسان جاگنے پر ہشاش بشاش نظر آتا ہے۔ اور اگر اس روح نفسانی کو خواب میں کوئی ناگوار حادثہ پیش آجائے تو بعض دفعہ انسان سوتے میں ہی چیخنے چلانے لگتا ہے اور جاگتا ہے تو سخت اندوہناک ہوتا ہے اور کہیں مار پٹے تو حیرت کی بات ہے کہ اس مار پٹائی کے اثرات اور نشانات بعض دفعہ انسان کے جسم پر نمودار ہوجاتے ہیں۔ جنہیں جاگنے کے بعد انسان خود بھی مشاہدہ کرسکتا ہے۔ اس حقیقت سے عذاب قبرر یا عالم برزخ کے عذاب کی ماہیت کو کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔ ٣۔ روح حیوانی موت کے ساتھ ہی فنا ہوجاتی ہے :۔ روح حیوانی کا تعلق محض بدن سے ہے۔ بدن نہ ہو تو اس روح کا کوئی وجود ہی نہیں رہتا۔ بلکہ یہ روح تو بدن کے بوسیدہ ہونے یا فنا ہونے کا بھی انتظار نہیں کرتی بلکہ موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے ختم ہونے سے بدن بدن نہیں کہلاتا ہے بلکہ جسد، میت، لاش اور نعش کہلاتا ہے۔ ٤۔ ان دونوں قسم کی روحوں میں سے کسی بھی ایک قسم کی روح کے خاتمہ سے دوسری قسم کی روح کا از خود جسم سے تعلق ختم ہوجاتا ہے اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص سوتے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہے کہ کسی دوسرے شخص نے اسے سوتے میں قتل کردیا۔ تو اب روح نفسانی خواہ کہیں بھی سیر کرتی ہوگی، دوبارہ اس جسم میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ اسے وہیں قبض کرلے گا۔ اس کے برعکس صورت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کی روح نفسانی کو خواب میں قبض کرلیں تو بستر پر سونے والا آدمی بغیر کسی حادثہ یا بیماری کے مر جائے گا۔ ٥۔ نیند آدھی موت ہوتی ہے :۔ اللہ تعالیٰ موت کی حالت میں بھی روح نفسانی کو قبض کرتا ہے۔ اور نیند کی حالت میں بھی۔ اور یہی وہ روح ہے جسے انا یا (EGO) کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے نیند بھی بہت حد تک موت کے مشابہ ہوتی ہے۔ اسی لئے سوتے وقت ہمیں جو دعا سکھائی گئی ہے۔ وہ یہ ہے۔ (اللّٰھُمَّ باسْمِکَ أمُوْتُ وَأحْیٰی) یعنی اے اللہ! میں تیرے ہی نام سے مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے زندہ ہوجاؤں گا۔ اور بیدار ہوتے وقت یہ دعا سکھائی گئی ہے۔ (ألْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ أحْیَانَا بَعْدَمَا أمَاتَنَا وَإلَیْہِ النُّشُوْرُ) ’’سب طرح کی تعریف اس اللہ کو سزاوار ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھا دیا اور اسی کے حضور حاضر ہونا ہے‘‘ ٦۔ نیند سے اٹھنے اور دوبارہ اٹھنے میں مماثلت :۔ وہ اللہ جو ہمیں ہر روز سلا کر موت کا نمونہ دکھاتا اور پھر اس کے بعد زندہ کرتا رہتا ہے وہ اس بات پر بھی پوری قدرت رکھتا ہے کہ حقیقی موت کے بعد دوبارہ زندہ کردے۔