ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ
وہ جہاں کہیں پائے جائیں، ان پر ذلت کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے، الا یہ کہ اللہ کی طرف سے کوئی سبب پیدا ہوجائے یا انسانوں کی طرف سے کوئی ذریعہ نکل آئے جو ان کو سہارا دیدے، انجام کار وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور ان پر محتاجی مسلط کردی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے، اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ (نیز) اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے، اور ساری حدیں پھلانگ جایا کرتے تھے۔
[١٠٢] موجودہ اسرائیلی حکومت کی بنیاد:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی ذلت و رسوائی کے اسباب بیان فرمائے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی راہ اختیار کی اور حدود اللہ سے تجاوز کرنے لگے، ان گناہوں نے ان کی طبائع پر یہ اثر کیا کہ بڑے بڑے جرائم پر دلیر ہوگئے، جیسے اللہ کی آیات ہی سے انکار کردینا انہیں چھپا جانا ان میں تحریف کرلینا حتیٰ کہ وہ انبیاء کے قتل کے بھی مرتکب ہوئے۔ پھر جب بدبختی کی اس انتہا کو پہنچ گئے تو ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا جس کے نتیجہ میں ذلت و رسوائی اور محتاجی ہمیشہ کے لیے ان کے مقدر کردی گئی اور اس سے بچاؤ کی دو صورتیں بتلائی گئی ایک یہ کہ اللہ کی ذمہ داری کی پناہ میں آجائیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں اور دوسرا یہ کہ کسی مسلمان حکومت کی پناہ میں رہیں اور دوسری یہ کہ غیر مسلم حکومتوں کے سایہ تلے رہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ١٩٤٧ ء تک باوجود اس کے کہ وہ دنیا کی مالدار ترین قوم تھے۔ دنیا میں دربدر پھرتے ہی رہے۔ ١٩٤٧ ء میں تین عیسائی حکومتوں، برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی مدد سے انہوں نے مختصر سے خطہ پر اپنی ایک الگ حکومت قائم کرلی ہے جسے کئی ممالک نے تاحال تسلیم ہی نہیں کیا اور عیسائی حکومتوں نے مسلمانوں سے انتقام کے طور پر مسلمان ممالک کے درمیان یہ حکومت قائم کرکے مسلمانوں کے جگر میں خنجر گھونپا ہے۔ آج بھی اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اسی کے دم قدم سے یہ اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ اگر امریکہ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ جائے، تو فوراً اس کا وجود ہی ختم ہوجائے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جس طرح یہود مغضوب علیہ قوم ہے اسی طرح آج کا مسلمان بھی اللہ کی نافرمانیوں کی بنا پر مغضوب علیہ قوم بن چکا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے اسرائیل کی صورت میں عذاب نازل ہوا اور جب تک مسلمان باہمی اتفاق و اتحاد کا ثبوت نہ دیں گے اور آپس میں الجھتے اور لڑتے مرتے رہیں گے ان پر یہ عذاب مسلط ہی رہے گا۔