كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ
(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں، مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے۔
[٩٩] امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت:۔ غور فرمائیے اللہ پر ایمان لانا سب باقی اعمال و افعال سے مقدم ہے۔ لیکن امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر محض اس لیے پہلے کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کو واضح کرنا مقصود تھا۔ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اے مسلمانو! تم بہترین امت صرف اس لیے ہو کہ تم برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک مسلمان اچھے کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے روکتے رہیں گے وہ بہترین امت رہیں گے اور جب انہوں نے اس فریضہ سے کوتاہی کی تو پھر بہترین امت نہیں رہیں گے۔ برے کاموں سے مراد کفر، شرک، بدعات، رسوم قبیحہ، فسق و فجور ہر قسم کی بداخلاقی اور بے حیائی اور نامعقول باتیں شامل ہیں اور ان سے روکنے کا فریضہ فرداً فرداً بھی ہر مسلمان پر عائد ہوتا ہے۔ اور اجتماعاً امت مسلمہ پر بھی۔ ہر ایک کو اپنی اپنی حیثیت اور قوت کے مطابق اس فریضہ سے عہدہ برآ ہونا لازم ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جب کوئی برائی دیکھے تو اسے بزور بازو ختم کردے اور اگر ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے ہی روکے اور اگر اتنا بھی نہیں کرسکتا تو کم از کم دل میں ہی اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب کون النہی عن المنکر من الایمان) اور نیک کاموں سے مراد توحید خالص اور ارکان اسلام کی بجا آوری جہاد میں دامے درمے شمولیت، بدعات سے اجتناب، قرابتداروں کے حقوق کی ادائیگی اور تمام مسلمانوں سے مروت، اخوت و ہمدردی اور خیر خواہی وغیرہ ہیں۔ [١٠٠]امت مسلمہ کی فضیلت :۔ ایک وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تمام جہاں والوں پر فضیلت بخشی تھی۔ مگر ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیا بلکہ خود بھی بے شمار بڑے بڑے جرائم میں مبتلا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی امامت و قیادت کی ذمہ داری ان سے چھین کر امت مسلمہ کے حوالے کردی۔ اب جو فضیلت انہیں حاصل تھی وہ امت مسلمہ کو حاصل ہوگئی اور قیادت کی اس تبدیلی کی واضح علامت چونکہ تحویل قبلہ تھی۔ لہٰذا یہود جتنے تحویل قبلہ پر چیں بہ جبیں ہوئے اتنے کسی بات پر نہ ہوئے تھے۔ اور یہ فضیلت اللہ کی دین ہے جس کو مناسب سمجھتا ہے اسے دیتا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گزشتہ لوگوں (یہود و نصاریٰ) کے مقابلہ میں تمہارا رہنا ایسا ہے جیسے عصر سے سورج غروب ہونے تک کا وقت۔ اہل تورات کو تورات دی گئی۔ انہوں نے (صبح سے) دوپہر تک مزدوری کی، پھر تھک گئے تو انہیں ایک ایک قیراط ملا۔ اہل انجیل کو انجیل دی گئی، انہوں نے عصر کی نماز تک مزدوری کی پھر تھک گئے۔ انہیں بھی ایک ایک قیراط ملا۔ پھر ہم مسلمانوں کو قرآن دیا گیا۔ ہم نے عصر سے سورج غروب ہونے تک مزدوری کی (اور کام پورا کردیا) تو ہمیں دو دو قیراط دیئے گئے۔ اب اہل کتاب کہنے لگے : ’’پروردگار! تو نے انہیں تو دو دو قیراط دیئے اور ہمیں ایک ایک حالانکہ ہم نے ان سے زیادہ کام کیا ہے۔‘‘ اللہ عزوجل نے انہیں جواب دیا : ’’میں نے تمہاری مزدوری (جو تم سے طے کی تھی) کچھ کم تو نہیں کی؟‘‘ انہوں نے کہا : ''نہیں'' اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تو پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے جو کچھ چاہوں دے دوں۔‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ باب من ادرک رکعۃ من العصر قبل المغرب ) اس آیت میں اہل کتاب کو یہ بتلایا جارہا ہے کہ اگر وہ ایمان لے آتے تو اس ذلت و خواری سے بچ سکتے تھے جو ان کے مقدر ہوچکی ہے، اگر وہ خیر الامم میں شامل ہوجاتے ہیں تو دنیا میں ان کی عزت بڑھتی اور آخرت میں دوہرا اجر ملتا۔ مگر حق کے واضح ہونے کے بعد ان کی اکثریت نافرمانی پر ہی اڑی رہی اور اپنا ہی نقصان کیا۔