سورة آل عمران - آیت 104

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٥]امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ :۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ امت مسلمہ کی اجتماعی زندگی کا ایک نہایت اہم ستون ہے اسی لیے کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر اس کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر خلافت کے مستحقین کا ذکر فرمایا تو ان کی صفات میں اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے بعد تیسرے نمبر پر اسی صفت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر فرمایا (٢٢ : ٤١) اس لیے بعض علماء نے اس فریضہ کو فرض عین قرار دیا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی اپنی علمی سطح اور صلاحیت کے مطابق یہ فریضہ بجا لاسکتا ہے اور یہ بات بھی بالکل درست اور بہت سی احادیث صحیحہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ تاہم اس آیت میں جس فرقہ کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں۔ جو علوم شریعت کے ماہر اور دعوت کے آداب سے واقف ہوں اور ان کی زندگی کا وظیفہ ہی یہ ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دیا کریں اور برے کاموں سے روکتے رہیں۔ نیز ﴿ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ ﴾ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خواہ کتنا ہی اہم فریضہ ہے تاہم فرض عین نہیں ہے۔