فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ
پھر اسے مچھلی نے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا
[٨٣] مُلِیْمٌ کا معنی وہ شخص ہے جس کا ضمیر خود ہی ملامت کر رہا ہو کہ وہ واقعی مجرم ہے اور کوئی ملامت کرے یا نہ کرے۔ اور سیدنا یونس علیہ السلام کو اپنی اجتہادی غلطی کا احساس بھاگنے کے فوراً بعد ہی ہوگیا تھا۔ اور قرعہ میں ہر بار آپ کا نام نکلنے پر اس کا یقین ہوگیا۔ [٨٤] چنانچہ آپ علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں چلے جانے کے بعد اپنے پروردگار کے حضور توبہ استغفار میں مشغول رہنے لگے۔ مچھلی کے پیٹ کی تاریکیوں میں آپ کا وظیفہ یہ ہوتا تھا۔ ﴿لاَاِلٰہَ الاَّ أنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمیْن﴾جیسا کہ سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٨٧ میں مذکور ہے۔ اگر آپ علیہ السلام یہ کلمات تسبیحات نہ پڑھتے رہتے تو ہمیشہ مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے یعنی اس کی غذا بن کر اس کے جسم میں تحلیل ہوجاتے۔