إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ
جن لوگوں نے کفر اپنایا اور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے، ان میں سے کسی سے پوری زمین بھر کر سونا قبول نہیں کیا جائے گا، خواہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے اس کی پیشکش ہی کیوں نہ کرے۔ ان کو تو دردناک عذاب ہو کر رہے گا، اور ان کو کسی قسم کے مددگار میسر نہیں آئیں گے۔
[٨٠] آخرت میں زر فدیہ :۔آخرت میں تو صرف وہ اعمال کام آئیں گے جو کسی نے اپنے لیے آگے بھیجے ہوں گے۔ اعمال کے سوا وہاں نہ مال و دولت کام آئے گا۔ نہ قرابتداری اور نہ سفارش۔ آیت مذکورہ میں جو صورت پیش کی گئی ہے۔ وہ بفرض تسلیم ہے۔ یعنی اگر کسی کافر کے پاس سونے کے ڈھیروں کے ڈھیر حتیٰ کہ زمین بھر سونا ہو تو اس کی آرزو یہی ہوگی کہ سب کچھ دے کر عذاب جہنم سے اپنی جان چھڑا لے۔ مگر وہاں یہ بات ناممکن ہوگی۔ چنانچہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ : آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائیں گے اگر تیرے پاس دنیا و مافیہا ہو تو کیا تو اسے اپنے فدیہ میں دے دے گا ؟ وہ کہے گا ''ہاں'' اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ’’جب تو انسانی شکل میں تھا تو میں نے تجھ سے اس سے آسان تر بات طلب کی تھی۔ (کہ توحید پر قائم رہنا) اور کہا تھا کہ پھر میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا، مگر تو شرک پر اڑا رہا۔‘‘ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ باب طلب الکافر الفداء مل الارض ذھبا)