إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ
(اس کے برخلاف) جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا، پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے، ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی۔ (٣١) ایسے لوگ راستے سے بالکل ہی بھٹک چکے ہیں۔
[٧٩]توبہ قبول ہونے کی شرائط :۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مثلاً یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرکے کفر کا رویہ اختیار کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی انکار کردیا جو ان کے کفر میں مزید اضافہ کا سبب بن گیا۔ ایسے معاندین کے حق میں توبہ کبھی قبول نہ ہوگی۔ دوسری صورت یہ کہ ایک شخص ایمان لایا۔ پھر اس کے بعد مرتد ہوگیا۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسلام دشمنی میں اپنی سرگرمیاں تیز تر کردیں، تو ایسے شخص کی بھی توبہ قبول نہ ہوگی۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مرتد ہوجانے کے بعد کفر پر ڈٹا رہا اور جب موت کا وقت آپہنچا تو توبہ کی سوجھی۔ اس وقت بھی توبہ قبول نہ ہوگی۔ البتہ جو لوگ اپنی زندگی میں اسلام دشمنی میں سرگرم اور تقریر و تحریر کے ذریعہ لوگوں میں الحاد اور باطل عقائد پھیلانے میں سرگرم رہے ہوں ان کی توبہ قبول ہونے کی صورت اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٦٠ بایں الفاظ بیان فرمائی۔ ﴿اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَیَّنُوْا﴾ یعنی ان کی توبہ کی قبولیت کے لیے تین شرطیں لازم ہیں۔ (١) سچی توبہ کریں (٢) اپنے اعمال و افعال درست کرکے اپنی اصلاح کرلیں اور جو کچھ الحاد یا باطل عقائد وہ لوگوں میں پھیلا چکے ہیں۔ برملا اس کی تردید بھی کریں۔ اگر تقریر کے ذریعہ گمراہی پھیلائی ہے تو اسی طرح بھری محفل میں ایسے عقائد سے بیزاری کا اظہار اور اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور اگر تحریری صورت میں گمراہی پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہیں تو تحریری صورت میں اس کی تلافی اور اپنی غلطی کا اعتراف کریں تو ایسے لوگوں کی بھی توبہ قبول ہوسکتی ہے۔