سورة يس - آیت 80

الَّذِي جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنتُم مِّنْهُ تُوقِدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور دیکھو وہ کارفرمائے قدرت جس نے سرسبز درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کی اور اب تم اس سے (اپنے چولہوں کی) آگ سلگا لیتے ہو

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٧٢] اللہ نے ہر مردہ میں زندہ اور زندہ میں مردے کی خاصیت رکھ دی ہے یعنی درخت کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر آخر میں اسے ایندھن بنا کر اس سے آگ نکالی۔ درخت کا آغاز پانی سے ہوا اور انتہا آگ پر ہوئی اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد بلکہ ایک لحاظ سے ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔ آگ تھوڑی مقدار میں ہو تو پانی اس کا وجود ختم کردیتا ہے۔ اور پانی کم مقدار میں ہو تو آگ اسے آبی بخارات میں تبدیل کرکے اسے ختم کردیتی ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ ایک ہی چیز کے آغاز اور انجام میں متضادصفات پیدا کرسکتے ہیں تو پھر ایک ہی چیز کو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کیوں نہیں بناسکتے۔ یہ تو عام درختوں اور پودوں کا حال ہے۔ پھر کچھ درخت ایسے بھی ہیں جن کی ٹہنیاں رگڑنے سے اس طرح آگ پیدا ہوجاتی ہے جس طرح چقماق پتھر سے پیدا ہوتی ہے۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کی ٹہنیاں موم بتی کی طرح جلتی ہیں۔ کیونکہ ان میں روغن خاصی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ غرضیکہ ہر درخت اور پودا جو پانی سے پیدا ہوا ہے اس کے اندر بھی آتش گیری کی صفات رکھ دی گئی ہیں۔ بالکل اسی طرح ہر مردہ میں زندہ ہونے اور زندہ میں مرنے کی صفت بھی فطری طور پر رکھ دی گئی ہے۔