سورة آل عمران - آیت 81

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس (کتاب) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے، اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے) گواہ بن جاؤ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧١]انبیاء سے لیاہواعہدان کی امت پر لاگو ہوتاہے :۔ اللہ تعالیٰ نے ایک عہد تو تمام بنی آدم سے عالم ارواح میں لیا تھا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے جس کا ذکر سورۃ اعراف کی آیت نمبر ١٧٧ میں آتا ہے اور دوسرا عہد انبیاء سے لیا گیا تھا۔ جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور مفسرین کی رائے کے مطابق یہ عہد بھی عالم ارواح میں ہی لیا گیا تھا اور وہ عہد یہ تھا کہ اگر تمہاری زندگی میں کوئی ایسا نبی آئے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود کتاب کی تصدیق کرتا ہو تو تمہیں اس پر ایمان بھی لانا ہوگا اور اس کی مدد بھی کرنا ہوگی۔ یہ حکم دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے اس حکم کی بجا آوری کی توثیق بھی کرائی۔ بے شمار انبیاء تو ایسے ہیں جو ہم عصر تھے۔ جسے حضرت ابراہیم اور لوط، حضرت موسیٰ اور ہارون، حضرت عیسیٰ اور یحییٰ علیہم السلام وغیرہ وغیرہ اور یہ سب دعوت الی اللہ کے کام میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار تھے۔ پھر جو عہد انبیاء سے لیا گیا تھا اس کو پورا کرنے کی ذمہ داری ہر نبی کی امت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہود پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیاء پر ایمان لاتے اور ان کے کام میں مددگار ثابت ہوتے۔ اسی طرح یہود، نصاریٰ اور مشرکین مکہ (جو اپنے آپ کو دین ابراہیم کا پیرو کار سمجھتے تھے) سب پر یہی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے اور ان کے معاون و مددگار ثابت ہوتے۔ پھر یہ بات صرف اس عہد تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ہر نبی کی کتاب میں بعد میں آنے والے نبی کی بشارت بھی دی جاتی رہی اور اس نبی اور اس کی امت سے اسی قسم کا عہد لیا جاتا رہا۔ آپ کےخاتم النبیین ہونے کی دلیل :۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کے انبیاء سے یہ عہد لیا گیا تھا اور ان کی کتابوں میں آنے والے نبی کی بشارت بھی دی گئی تھی۔ لیکن آپ سے اس قسم کا عہد نہیں لیا گیا کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ نہ ہی قرآن و حدیث میں کسی آنے والے نبی کی بشارت دی گئی ہے۔ اس کے برعکس قرآن میں آپ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے اور بے شمار احادیث صحیحہ سے یہ بات واضح ہے کہ آپ کے بعد تاقیامت کوئی نبی نہیں آئے گا۔ البتہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام ضرور نازل ہوں گے۔ مگر اس وقت ان کی حیثیت آپ کے متبع کی ہوگی یعنی وہ شریعت محمدیہ کی ہی اتباع کریں گے۔