إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ
ہم یقینا مردوں کو زندہ کریں گے اور جوافعال انہوں نے کیے اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں وہ سب ہم لکھ رہے ہیں اور ہر شے کو اس کتاب واضح میں ہم نے جمع کردیا ہے
[ ١٢] اس کا ایک مفہوم تو واضح ہے اور یہی مفہوم دنیا میں بھی ہر آن مشاہدہ میں آرہا ہے۔ اور یہی مفہوم عقیدہ آخرت کی بنیاد ہے اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ قرآن نے بعض مقامات پر موتٰی سے مراد مردہ دل کافر بھی لئے ہیں۔ اس لحاظ سے اس جملہ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ عرب قوم جس کی اخلاقی اور روحانی قوتیں بالکل مرچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ پھر ان میں زندگی کی روح پھونک دے کہ وہ دنیا میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دے اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے اپنے عظیم آثار چھوڑ جائے۔ اثر کا لغوی مفہوم :۔ اثر کا معنی دراصل قدموں کے نشان ہیں۔ جو کسی انسان کے چلنے کے بعد زمین پر پڑجاتے ہیں۔ پھر اس لفظ کا اطلاق زمین پر پڑے ہوئے قدموں پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنی سلمہ کے لوگوں نے (جن کے مکان مسجد نبوی سے دور تھے) ارادہ کیا کہ وہ اپنے مکان چھوڑ دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آکر رہائش پذیر ہوں۔ (تاکہ آسانی سے نماز باجماعت میں شامل ہوسکیں۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی سرحدوں کا اجڑنا برا معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : کیا تم اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اٰثَارَھُم سے مراد زمین پر چلنے سے پاؤں کے نشانات مراد ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب احتساب الآثار) [ ١٣] زندگی کے بعد اعمال نامہ میں درج ہونے والے اعمال :۔ ہر انسان کے اعمال نامہ میں تین طرح کے اندراجات ہوتے ہیں۔ ایک وہ اعمال و اقوال جو اس نے اپنی زندگی کے دوران سرانجام دیئے تھے۔ دوسرے اعمال کے اثرات جو عمل کرنے سے انسان کے اپنے جسم، اس کے اعضاء و جوارح، زمین یا فضا میں مرتسم ہوتے رہتے ہیں۔ اور تیسرے وہ اعمال جن کے اچھے یا برے اثرات اس کی زندگی کے بعد بھی باقی رہ گئے۔ مثلاً کسی شخص نے کوئی مفید کتاب تصنیف کی یا لوگوں کو علم دین سکھایا اور یہ سلسلہ آگے چلتا رہا یا کوئی چیز اللہ کی راہ میں وقف کر گیا۔ یہ سب کچھ اس کے عمل کے اثرات ہیں اور ان کا ثواب اس کے اعمال نامہ میں اس زندگی کے بعد بھی درج ہوتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے کوئی شرکیہ عقیدہ یا بدعت یا کوئی بدرسم نکالی تو جو شخص ان باتوں کو اپنائیں گے حصہ رسدی ان کا گناہ اس کے ایجاد کرنے والے کے اعمال نامہ میں بھی درج ہوتا رہتا ہے۔ [ ١٤] لوح محفوظ کے نام اور صفات :۔ کتاب مبین سے مراد لوح محفوظ ہے۔ جس کے مزید نام ام الکتاب اور کتاب مکنون بھی قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ اس امام مبین کا مکمل ادراک تو انسان کے احاطہ سے باہر ہے تاہم روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی تختی یا کتاب ہے جس میں کائنات کی تقدیر کے متعلق تمام امور پہلے سے لکھ دیئے گئے ہیں۔ اور ان میں رد و بدل نہیں ہوتا اور یہ تمام احکام وفرامین اور کلمات الٰہی کا مصدر ہے اور مکنون اس لحاظ سے ہے کہ اس کے مندرجات کی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو خبر نہیں۔ گویا لوگوں کے جو اعمال نامے تیار ہو رہے ہیں جو اعمال و آثار کے وقوع کے بعد لکھے جاتے ہیں۔ عین اللہ کے اس علم کے مطابق ہوتے ہیں جس کے مطابق اس نے ہر چیز پہلے سے ہی امام مبین میں درج کر رکھی ہے۔