سورة فاطر - آیت 18

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کوئی گراں بارکسی دوسرے کابوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بوجھ سے کچھ نہ ہٹایاجائے گا خواہ وہ پکارنے والا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ اے نبی آپ صرف انہی لوگوں کو متنبہ کرسکتے ہیں جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف سب کو لوٹ کرجانا ہے (٧)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٢٥] وزر کا لغوی مفہوم اور قانون جزاء و سزا :۔ وزر کا لفظ، بالخصوص گناہوں کے بوجھ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ جو کرے گا، وہی بھرے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی دوسرا یہ کہ اسے اتنی ہی سزا ملے گی جتنا اس نے گناہ کیا ہوگا اس سے زیادہ نہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص ایسا گناہ کا کام رائج کر جائے جس پر بعد میں آنے والے لوگ عمل پیراہوں مثلاً کوئی شرکیہ عقیدہ یا کام یا کوئی بدعت رائج کرجائے تو حصہ رسدی کے طور پر اس کے اپنے گناہوں کے بوجھ میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔ اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ اپنے ذمہ لینے کو تیار بھی نہ ہوگا۔ نہ باپ بیٹے کا گناہ اپنے سر مول لے گا اور نہ بیٹا باپ کا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی ہی فکر لاحق ہوگی۔ کفار مکہ بعض مسلمانوں کو یہ بات کہا کرتے تھے کہ تم اپنے آبائی دین میں واپس آجاؤ۔ اگر کوئی عذاب و ثواب کی بات ہوئی بھی تو تمہارا بوجھ ہم اپنے ذمہ لے لیں گے۔ اور یہ بات وہ اس لحاظ سے کہتے تھے کہ وہ آخرت اور آخرت کی باز پرس کے قائل ہی نہ تھے۔ اس آیت میں ان لوگوں کے اس قول کا بھی جواب آگیا کہ یہ محض ان کے منہ کی باتیں ہیں۔ جب انہیں محاسبہ سے دوچار ہونا پڑا تو اس کے حواس ٹھکانے آجائیں گے۔ [ ٢٦] یعنی ضدی اور ہٹ دھرم قسم کے لوگ آپ کے سمجھانے اور ڈرانے سے کبھی اپنا رویہ نہ بدلیں گے۔ نصیحت صرف اس شخص کے حق میں کارگر ہوسکتی ہے؟ جو بن دیکھے آخرت پر یقین رکھتا ہو اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی سے ڈرتا ہو۔ ایسے ہی لوگ نمازیں بھی قائم کرتے ہیں۔ اور اپنا طرز عمل پاکیزہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس میں ان کا اپنا ہی بھلا ہے وہ اللہ پر کچھ احسان نہیں کرتے۔ اور یہ فائدہ اس وقت پوری طرح ظاہر ہوگا جب سب لوگ اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔