وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ
اور سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا، اس ہوا کا صبح کو چلنا ایک مہینے کی مسافت اور شام کو چلنا بھی ایک مہینے کی مسافت تک تھا، اور ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہادیا اور جنات میں سے بعض وہ تھے جو سلیمان کے رب کے حکم سے اس کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے جوہمارے حکم سے سرتابی کرتا تو ہم اسے دہکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے
[ ١٨] تشریح کے لئے دیکھئے (سورہ انبیاء کی آیت نمبر ٨١ کا حاشیہ نمبر ٦٩) [ ١٩] سیدنا سلیمان علیہ السلام اور تانباپگھلانے کافن:۔ اس کی دو توجیہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے عہد حکومت میں یمن میں تانبے کا ایک پگھلا ہوا چشمہ نکل آیا تھا اور دوسری یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد داؤد علیہ السلام کو لوہا پگھلانے کا فن عطا فرمایا تھا۔ اور آپ سے اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے، اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کو تانبا پگھلانے کا فن عطا فرمایا تھا۔ آپ وسیع پیمانے پر تانبا پگھلاتے۔ پھر اس کو سانچوں میں ڈال کر خبات بڑے بڑے برتن، دیگیں اور لگن وغیرہ تیار کرتے تھے۔ جن میں ایک لشکر کا کھانا پکتا اور کھلایا جاتا، یہ تو سرکاری ضروریات تھیں۔ علاوہ ازیں آپ تانبے کی اشیاء عام لوگوں کی ضروریات کے لئے بھی بناتے تھے۔ [ ٢٠]جنوں کا آپ کےلیے مزدوروں کی طرح کام کرنا:۔ اس مقام پر جن کا لفظ آیا ہے۔ جبکہ سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٨٢ میں انہی معنوں میں شیاطین کا لفظ آیا ہے۔ بات ایک ہی ہے جن کا لفظ اسم جنس ہے۔ جبکہ شیاطین کا اطلاق صرف سرکش اور متکبر قسم کے جنوں پر ہوتا ہے۔ (اور شیاطین انسانوں میں سے بھی ہوسکتے ہیں) یہ جن معمولی قلیوں، خدمتگاروں اور مزدوروں کی طرح آپ کے کام کرتے اور آپ کے حکم پر چلتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو حضرت سلیمان کا تابع بنا رکھا تھا اور وہ آپ کی اطاعت پر مجبور تھے۔ اگر وہ ذرا بھی سرکش کرتے تو آگ میں پھونک دیئے جاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ان جنوں پر اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کردیا تھا۔ جس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہوتا۔ جو کوئی جن حضرت سلیمان علیہ السلام کی نافرمانی کرتا یہ فرشتہ اس کو کوڑا مار کر جلا دیتا تھا۔