كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(اے افراد نسل انسای !) تم کس طرح اللہ سے (اور اس کی عبادت سے) انکار کرسکتے ہو جبکہ حالت یہ ہے کہ تمہار اوجود نہ تھا، اس نے زندی بخشی پھر وہی ہے جو زندگی کے بعد موت طاری کرتا ہے اور موت کے بعد دوبارہ زندگی بخشے گا، اور بالآخر تم سب کو اسی کے حضور لوٹنا ہے
[٣٦] زندگی اور موت کے چار مراحل :۔ اس آیت میں انسان پر وارد ہونے والی چار کیفیات کا ذکر ہے۔ پہلے موت، پھر زندگی، پھر موت، پھر زندگی۔ روح اور جسم کے اتصال کا نام زندگی اور ان کے انفصال کا نام موت ہے۔ پہلی حالت موت ہے یعنی جملہ انسانوں کی ارواح تو پیدا ہوچکی تھیں۔ لیکن جسم اپنے اپنے وقت پر عطا ہوئے، اسی عرصہ میں عہد الست لیا گیا تھا۔ دوسری حالت انسان کی پیدائش سے لے کر اس کے مرنے تک ہے، جس میں وہ اچھے یا برے اعمال کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ تیسری حالت موت سے لے کر حشر تک اور چوتھی اور آخری حالت دوبارہ جی اٹھنے (حشر) کے بعد لامتناہی زندگی ہے۔ یاد رہے کہ جن حالتوں کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان میں بھی زندگی کی کچھ نہ کچھ رمق موجود ہوتی ہے۔ مگر چونکہ غالب اثرات موت کے ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں موت سے تعبیر کیا گیا۔ کیونکہ پہلی موت کے درمیان ہی عہد الست لیا گیا تھا اور دوسری موت میں ہی انسان کو قبر کا عذاب ہوتا ہے اور دنیا میں بھی یہ حالت خواب سے سمجھا دی گئی ہے۔ کیونکہ خواب کی حالت میں انسان پر بیشتر اثرات موت کے غالب ہوتے ہیں۔ تاہم وہ عالم خواب میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور کئی طرح کے کام کرتا ہے اور خواب یا نیند کو حدیث میں موت کی بہن قرار دیا گیا ہے، زندگی کی نہیں، نیز سونے کے وقت یہ دعا سکھائی گئی ہے۔ اللھم باسمک أموت وأحییٰ نیز قرآنی تصریحات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ موت سلبی چیز نہیں بلکہ ایجابی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے موت کو پہلے پیدا کیا تھا اور زندگی کو بعد میں جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً﴾(۲:۶۷) ”اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اعمال کے اعتبار سے اچھا ہے“اور زیر مطالعہ آیت میں انسان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ جو ہستی تمہاری ذات پر اتنے وسیع تصرفات کی قدرت رکھتی ہے تم اس کا انکار کیسے کرسکتے ہو؟