فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
تمہارے پاس ( حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے کا) جو صحیح علم آگیا ہے اس کے بعد بھی جو لوگ اس معاملے میں تم سے بحث کریں تو ان سے کہہ دو کہ :“ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے لوگوں کو اور تم اپنے لوگوں کو، پھر ہم سب ملکر اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں، اور جو جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ (٢٥)
[٥٦]اہل نجران کا جزیہ قبول کرنا اورمباہلہ سےفرار:َ اس آیت میں مباہلہ کا طریق کار بیان کیا گیا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے انہیں سنائی تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں کچھ سوچنے اور مشورہ کرنے کی مہلت دی جائے۔ پھر جب ان کی مجلس مشاورت قائم ہوئی تو ایک ہوشمند بوڑھے نے کہا : اے گروہ نصاریٰ ! تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں سے ایک نبی بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ ممکن ہے یہ وہی نبی ہو۔ جو باتیں اس نے کہی ہیں وہ صاف اور فیصلہ کن ہیں۔ اگر یہ فی الواقع وہ نبی ہوا اور تم لوگوں نے مباہلہ کیا تو تمہاری کیا تمہاری نسلوں کی بھی خیر نہ ہوگی۔ بہتر یہی کہ ہم ان سے صلح کرلیں۔ اپنے وطن کو لوٹ جائیں۔ چنانچہ دوسرے دن جاکر انہوں نے آپ کو اپنے فیصلہ سے مطلع کردیا اور صلح کی درخواست کی اور جزیہ ادا کرنا قبول کرلیا۔ اس واقعہ کو امام بخاری نے مختصراً ان الفاظ میں روایت کیا ہے۔ عبیدہ بن الجراح امین الامت:۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجران سے عاقب اور سید آپ کے پاس آئے۔ یہ لوگ آپ سے مباہلہ کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا۔ ’’اگر یہ نبی ہوا اور ہم نے مباہلہ کیا تو پھر نہ ہماری خیر ہوگی نہ ہماری اولاد کی‘‘ پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : ’’جو جزیہ آپ مانگتے ہیں۔ وہ ہم دے دیں گے۔ آپ ایک امین آدمی ہمارے ہمراہ کردیجئے جو فی الواقع امین ہو۔‘‘ یہ سن کر آپ کے صحابہ انتظار کرنے لگے (کہ آپ کس کا نام لیتے ہیں) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عبیدہ بن جراح! اٹھو!‘‘ جب وہ کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس امت کا امین یہ شخص ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی، باب قصہ اہل نجران)