ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ
پھر اس کی تمام قوتوں کی درستی کی اور اپنی روح (میں سے ایک قوت) پھونک دی اور اس طرح اس کے لیے سننے، دیکھنے اور فکر کرنے کی قوتیں پیدا کردیں (لیکن افسوس انسان کی غفلت پر) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت کاشکرگزار ہو
[ ١٠] تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی انفرادی توجہ :۔ پھر اسی انتہائی چھوٹے سے جرثومہ کو رحم مادر میں پیوست کیا تو اس کے بالکل ویسے ہی اعضاء بننے لگے اور ان پر گوشت پوست چڑھنے لگا جس چیز کا وہ جرثومہ تھا اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی انفرادی توجہ سے اس میں چند نمایاں اختلاف بھی رکھ دیئے۔ لیکن اعضاء کے توازن و تناسب میں کچھ فرق نہ آنے دیا۔ پھر یہ سب کچھ درست کرنے اور آنکھ، ناک، کان، دل وغیرہ سب اعضاء کو درست اور ٹھیک ٹھاک کردینے کے بعد اس میں اپنے ہاں سے روح پھونک دی اور مقررہ وقت کے بعد وہ ایک تندرست اور جیتا جاگتا انسان بن کر رحم مادر سے باہر نکل آیا۔ یہ سب باتیں ایسے بدیہی امور ہیں جو سب انسانوں کے مشاہدہ میں آتی رہتی ہیں۔ پھر بھی انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جو نہ ان قدرتوں کا اعتراف کرتی ہے اور نہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر بجا لاتی ہے۔ (نیز دیکھئے سورۃ حجر کا حاشیہ ١٩)