وَمِنْ آيَاتِهِ أَن يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ خوش خبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت سے لذت اندوز کرے اور تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں جاری ہوں اور تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم اس کاشکر بجالاؤ۔
[٥٤]ہواؤں کےفائدے:۔ قرآن میں جہاں بھی ارسال الریاح کے الفاظ مذکور ہوں (یعنی میح کا لفظ جمع کے صیغہ میں ہو) تو اس سے مراد خوشگوار ہوائیں ہوتی ہیں اس آیت میں دو قسم کی خوشگوار ہواؤں اور ان کے فوائد کا ذکر کیا۔ ایک باران رحمت سے پہلے دلوں کو فرحت بخشنے والی اور بارش کی بشارت دینے والی ہوائیں، جس سے زمین سیراب ہوتی ہے اور اس بارش میں طرح طرح کے فائدے ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ موافق ہوائیں جو کشتیوں اور جہازوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ پہلے زمانہ میں تو رواج ہی بادبانی کشتیوں کا تھا جن کے چلنے کا زیادہ تر انحصار باد موافق پر ہی ہوتا ہے۔ آج دخانی کشتیوں اور جہازوں کا دور ہے۔ پھر بھی بادموافق اور باد مخالف کا دخانی کشتیوں اور جہازوں پر خاصا اثر پڑتا ہے یہ کشتیاں جو باد موافق کے سہارے چلتی ہیں ان میں تم سفر ہی نہیں کرتے بلکہ اپنا تجارتی سامان بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں لے جاکر خوب نفع کماتے ہو۔ یہ ہوائیں تو اللہ ہی بھیجتا ہے۔ پھر کیا تم اس کی اس نعمت کا شکر بھی ادا کرتے ہو؟اللہ کی ان مہربانیوں کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔