سورة الروم - آیت 22

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور حکمت الٰہی کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی آسمانوں اور زمین کی خلقت ہے اور طرح طرح کے رنگوں اور بولیوں کاپیدا ہونا ہے فی الحقیقت اس میں بڑی نشانیاں ہیں ارباب علم وحکمت کے لیے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٩] اختلاف اوریکسانیت کا امتزاج اللہ کی انفرادی توجہ پردلالت کرتاہے؟ سب سے پہلے تو انسان ایک ہی جیسے عناصر کا مرکب ہے پھر ایک کا منہ، زبان، گلا اور لب سب کچھ ایک جیسے ہیں لیکن آواز اور لب ولہجہ ہر شخص کا دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کسی کی آواز سریلی اور شریں ہوتی ہے کسی دوسرے کی بھاری اور ناگوار۔ حالانکہ قوائے نطقیہ سب انسانوں کے ایک جیسے ہیں۔ پھر ہر ایک علاقہ اور ملک کی زبان ایک دوسرے سے مختلف ہے کہیں عرب زبان بولی جاتی ہے، کہیں فارسی، کہیں انگریزی، کہیں پشتو، کہیں اردو غرض کہ سینکڑوں قسم کی زبانیں ہیں اور یہ انواع ہیں۔ پھر ایک ہی علاقہ میں چند میلوں کے فاصلہ پر ہی زبان میں ذیلی قسم کی تبدیلیاں اور محاورات میں اختلاف ہوتے ہیں جن میں فرق صرف اس علاقہ کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ پھر ہر علاقہ کی زبان کے ساتھ اس کے حروف تہجی میں ان کے مخارج میں اور لب و لہجہ میں اختلاف واقعہ ہوتا ہے یہی حال رنگوں کا ہے۔ کسی علاقہ کے لوگ سفید رنگ کے ہوتے ہیں کسی کے کالے، کسی کے سرخ، اور کسی کے گندمی رنگ کے، کہا جاتا کہ انسان کی جلد کے رنگ پر اس علاقہ کی مخصوص آب و ہوا کا اثر ہوتا ہے جس سے رنگت میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ یہ بات بھی صرف جزوی طور پر ہی تسلیم کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی ماں باپ اور ایک علاقہ ہوتا ہے۔ مگر اولاد کی رنگت میں فرق ہوتا ہے۔ اگرچہ اس آیت میں صرف دو چیزوں لسان اور رنگ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر اور بھی بہت سے پہلو ہیں جن کے اختلافات واقع ہوتے ہیں مثلاً کسی علاقے کے لوگ بلند قدو قامت رکھتے ہیں، کہیں پست قامت ہوتے ہیں اور کہیں درمیانہ قد والے۔ اسی طرح کہیں لوگ چپٹی ناک والے ہوتے ہیں اور کہیں لمبوتری اور اونچی ناک والے مثلاً ایک ہی والدین کے اولاد کی شکلوں میں جو فرق ہوتا ہے اسے والدین اور قریبی رشتہ دار تو محسوس کرسکتے ہیں لیکن اجنبی لوگ ان میں یکسانیت ہی محسوس کرتے ہیں اور بعض دفعہ امتیاز بھی نہیں کرسکتے۔ ان سب باتوں سے یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ رحم مادر میں پرورش پانے والا ہر جاندار اللہ تعالیٰ کی انفرادی توجہ کا محتاج ہوتا ہے۔ بے شمار ایسی باتیں ہیں جو رحم مادر میں ہی انسان کے حصہ میں آتی ہیں۔