قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ۚ ثُمَّ اللَّهُ يُنشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
ان سے کہیے کہ زمین میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح پہلی بار پیدا کیا پھر اللہ ہی آخری نشاۃ بخشے گا، یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے
[ ٣٢]ہرایک ذرے کے اندرکائناتی نظام:۔ اب اگر انسان کائنات کی دوسری اشیاء اور جمادات میں غور کرے تو اور بھی زیادہ ورطہ حیرت میں گم ہوجاتا ہے۔ ہر مادی چیز ان گنت چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر بنی ہے۔ سب سے چھوٹا ذرہ جو انسان کے علم میں آیا ہے وہ ایٹم (Atom) ہے۔ جو انیسویں صدی تک جزو لا یتجزّٰی سمجھا جاتا رہا۔ یعنی اتنا حقیر ذرہ جس کی مزید تقسیم ناممکن تھی۔ اور اسے صرف کسی طاقتور خوردبین کی مدد سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ مگر موجودہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس حقیر سے ذرے میں بھی ایک بڑا ہی مضبوط نظام قائم ہے۔ اس میں الیکٹران (electron) بھی ہے اور پروٹون Pruton)) بھی۔ اور دونوں بڑے منضبط طریقے سے اس حقیر سے ذرہ کے اندر اس طرح محو گردش ہیں جس طرح ہمارا نظام شمسی اور سورج کے گرد سیارے محو گردش ہیں۔ ان کو اپنا مفوضہ کام کرنے سے کوئی چیز بھی روک نہیں سکتی۔ نہ ہی یہ ایک دوسرے کے کام میں خلل اندازی کرتے ہیں۔ ہر مادہ جسم ایسے ہی لاتعداد ذرات سے مل کر بنتا ہے۔ اور اگر اس ذرہ میں موجود نظام کو توڑا جائے تو اس حقیر سے ذرے سے بے پناہ توانائی حاصل ہوتی ہے۔ جن سے موجودہ دور میں ایٹم بم تیار کیا جاتا ہے۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ اس توانائی کو اپنی تعمیری ضرورتوں کے لئے استعمال کرے یا اس سے نوع انسانی کو تباہ و برباد کردینے اور تخریبی کاموں کے لئے استعمال کرے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس ہستی نے ہر مادہ چیز کو اس محیر العقول طریق سے پہلی بار پیدا کرلیا کیا وہ دوبارہ ایسی ہی مخلوق پیدا نہ کرسکے گا ؟ موجودہ کیفیات نے ثابت کردیا ہے کہ مادہ صرف اپنی شکل بدلتا رہتا ہے۔ اس میں سے کچھ بھی اس کا حصہ بالکل فنا نہیں ہوجاتا۔ اس تحقیق نے بعث بعد الموت کے عقیدے کو بہت حد تک قریب الفہم بنا دیا ہے کیونکہ مادہ کے ایک ایک ذرہ پر اللہ تعالیٰ کا براہ راست کنٹرول ہے۔