إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم اللہ کوچھوڑ کر محض بتوں کی پرستش کررہے ہو اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو اور یہ واقعہ ہے کہ خدا کوچھوڑ کر تم جن کی پرستش کررہے ہو وہ تمہیں روزی دینے کاذرا بھی اختیار نہیں رکھتے سو تم اللہ ہی سے رزق طلب کرو، اسی کی بندگی کرو اور اسی کاشکرادا کرو (تم سب کواسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے)
[ ٢٦] بتوں کےلیے قرآن میں مستعمل الفاظ:۔ قرآن میں بتوں کے لئے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں (١) صنم (ج الاصنام) کے معنی وہ بت ہیں جو قابل انتقال اور قابل فروخت ہوں خواہ یہ پیتل یا لوہے یا چاندی کے ہوں یا لکڑی کے یا پتھر کے اور صناعة الاصنام بمعنی بت تراشی کا فن جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ آذر بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ (٢) نصب ایسے بتوں یا مجسموں کو کہتے ہیں جنہیں کسی جگہ پوجا پاٹ کے لئے نصب کردیا گیا ہو۔ جیسے مشرکین مکہ کے بت لات و منات، عزی اور ھبل وغیرہ تھے (٣) اوثان (وثن کی جمع) وثن کا تعلق زیادہ تر مقامات سے ہوتا ہے۔ یعنی آستانے وغیرہ خواہ وہاں بت نصب ہوں یا نہ ہوں۔ بعض دفعہ بعض مخصوص مقامات پر پتھروں، درختوں، ستاروں یا دریاؤں وغیرہ سے الٰہی صفات کا عقیدہ رکھ کر ان کی پرستش شروع کردی جاتی ہے۔ اور ایسے مقامات بسا اوقات کسی بزرگ یا ولی سے یا کسی بت سے منسوب ہوتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو اوثانا کا ذکر کیا تو اس سے مراد قوم ابراہیم کے بت خانے ہیں جن میں بت از خود شامل ہوں۔ [ ٢٧]آستانوں کےلیے جھوٹےقصے کہانیاں گھڑنا کیوں ضروری ہے؟ یعنی تم لوگ بت نہیں گھڑتے بلکہ جھوٹ کا پلندہ گھڑتے ہو۔ اور ان بتوں اور بت خانوں سے تم کئی قصے اور کہانیاں خود گھڑ کر ان سے منسوب کردیتے ہو۔ مثلاً اگر فلاں آستانے پر مہینہ میں ایک دفعہ دودھ کا چڑھاوا نہ چڑھایا جائے تو جانور بیمار پڑجاتے ہیں یا مر جائے ہیں۔ یا فلاں آستانے کی گستاخی یا توہین کا انجام اس قدر خطرناک ہوتا ہے یا فلاں بت خانے یا مزار پر حاضری دینے سے رزاق میں فراوانی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا تم جو ان بتوں کو گھڑتے ہو تو ساتھ ہی جھوٹ کے پلندے بھی گھڑتے ہو۔ ورنہ صرف بت گھڑنے کا تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ [ ٢٨] اس آیت اور اس سے پہلی آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شرک کے ابطال پر تین دلائل قوم کے سامنے رکھے۔ ایک یہ کہ یہ بت تمہارے اپنے گھڑے ہوئے ہیں۔ گویا تم اللہ کی مخلوق ہو اور یہ تمہاری مخلوق ہیں۔ اور الٰہ کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ خالق ہے۔ باقی سب اس کی مخلوق ہے اور جو مخلوق ہے وہ الٰہ نہیں ہوسکتی اور یہ بت تو مخلوق در مخلوق ہیں یہ الٰہ کیسے بن گئے؟ دوسری دلیل یہ ہے کہ ان بتوں کے نفع یا نقصان سے متعلق تمہیں ہی داستانیں اور قصے کہانیاں تراشنا پڑتی ہیں۔ اگر تمہارے ان قصے کہانیوں کو ان سے علیحدہ کردیا جائے تو باقی یہ پتھر کے پتھر یا بے جان مادے ہی رہ جاتے ہیں اور ایسے مادے الٰہ کیسے ہوسکتے ہیں۔؟ تیسری دلیل یہ کہ یہ تمہیں رزق کیا دیں گے۔ رزق تو تم خود ان کے آگے چڑھاووں اور نذروں نیازیوں کی صورت میں رکھتے ہو۔ چاہو تو تم ان کے آگے رزق رکھ دو ۔ چاہے اٹھا لو۔ چاہے ان کے اوپر مَل دو۔ لہٰذا ایسے غلط عقائد ان سے منسوب نہ کرو۔ اور رزق مانگنا ہے تو اللہ سے مانگو اور جس کا کھاؤ اسی کے گنا گاؤ۔ اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر بجا لاؤ۔ [ ٢٩] یعنی بالآخر تم نے اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور تمہارا انجام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ان بتوں کی طرف نہ تم نے پلٹنا ہے نہ تمہارا انجام ان کے ہاتھ میں ہے لہٰذا تمہیں عبادت تو اس کی کرنا چاہئے جو تمہاری عاقبت کو سنوار سکتا ہے۔ اور رزق بھی اس سے مانگنا چاہئے۔