سورة القصص - آیت 15

وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ قَالَ هَٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جب کہ تمام لوگ غافل تھے موسیٰ شہر میں آئے اور اس میں دو آدمیوں کو دیکھا کہ لڑ رہے تھے ان میں سے ایک آدمی ان کی قوم کا تھا اور دوسراان کے دشمن کے گروہ کا، موسیٰ کو دیکھ کر ان کی قوم کے آدمی نے دشمن کے ظلم کی فریاد کی موسیٰ نے اسے ایک گھونسا مارا کہ وہ مرگیا، موسیٰ نے دل میں کہا کہ ہی تو شیطانی کام ہوگیا بے شک شیطان انسان کو گمراہ دشمن ہے (٣)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٢] اس آیت یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہی محلات شہر یا عام لوگوں کی رہائشی آبادی سے کچھ دور تھے۔ جیسا کہ عام دستور ہے کہ بڑے بڑے لوگ عام آدمیوں میں گھل مل کر رہنا پسند نہیں کرتے بلکہ شہر سے باہر کھلی فضا میں اپنی رہائش گاہیں، بنگلے، کوٹھیاں اور محل بنواتے ہیں۔ [٢٣] یعنی جب لوگ سو رہے تھے اور راستے اور سڑکیں سنسان اور بے آباد معلوم ہوتی تھیں۔ ایسا وقت عموماً علی الصبح ہوا کرتا ہے سورج کے طلوع ہونے سے بہت پہلے یا گرمیوں میں دوپہر کے بعد جب اکثر لوگ آرام کررہے ہوتے ہیں۔ [٢٤] ایک قبطی اور سبطی کی لڑائی اور موسیٰ علیہ السلام کا قبطی کو مکامارنا اور اس کا کام تمام ہونا:۔ موسیٰ علیہ السلام جب ایسے شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ان میں ایک قبطی ہے یعنی مصر کا قدیمی باشندہ یا حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والا ہے اور دوسرا سبطی یا بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام بچپن ہی میں دیکھ رہے تھے کہ بنی اسرائیل پر حکومت وقت کیا کیا مظالم ڈھا رہی ہے۔ اور انھیں کیسے معاشرہ میں ذلیل و رسوا بنا کر رکھا جارہا ہے۔ ان لڑنے والوں میں سے سبطی نے آپ کو مدد کے لئے پکارا کہ میں اسے قبطی کے ظلم سے چھڑاؤں۔ یہ قبطی شاہی باورچی خانے کا نوکر تھا۔ جو سبطی سے بیگار یہ لینا چاہ رہا تھا کہ ایندھن کا گٹھا بلامعاوضہ باورچی خانہ تک چھوڑ کر آؤ۔ حضرت موسیٰ کے دل میں قبطیوں کے خلاف نفرت تو پہلے سے موجود تھی۔ سبطی کی فریاد پر وہاں پہنچے اور جب انھیں معلوم ہوا کہ زیادتی قبطی ہی کر رہا ہے تو تو رگ حمیت جوش میں آگئی اور اسے ایک گھونسا رسید کیا۔ آپ ماشاء اللہ بڑے طاقتور جوان تھے۔ گھونسے کا لگنا تھا کہ قبطی کا کام تمام ہوگیا۔ [٢٥] حضرت موسیٰ سے اس طرح ایک قبطی کا قتل ہوجانا دراصل ایک بڑے فتنہ کا سبب بن سکتا تھا۔ اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ آس پاس کوئی گواہ موجود نہ تھا۔ اور یہ بات صیغہ راز میں ہی رہ گئی کہ اس قبطی کا قاتل کون ہے اور اگر پتا چل بھی جاتا تو بنی اسرائیل پر ان کی زندگی اور بھی اجیرن بنا دی جاتی۔ موسیٰ علیہ السلام کو جب قتل کے اس انجام کا خیال آیا تو فوراً پکار اٹھے کہ یہ کام مجھ سے شیطان نے کروایا ہے۔ وہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ ایسے فتنے کھڑے ہوتے رہیں۔