سورة النمل - آیت 88

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور تم پہاڑوں کو دیکھ کرسمجھتے ہو کہ خوب جمے ہوئے ہیں مگر اس دن بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے یہ سب اللہ ہی کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز خوبی اور درستی کے ساتھ بنائی بلاشبہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٥] قیامت کوپہاڑوں کا انجام:۔ یعنی جب قیامت قائم ہوگی تو اس کا آغاز اس طرح ہوگا کہ نظام کائنات میں زبردست خلل واقع ہوجائے گا۔ زمین مسلسل ہچکولے کھانے لگے لگی۔ اور پہاڑوں جیسی ٹھوس، سخت اور جامد چیز اپنی جڑیں چھوڑ کر ریزہ ریزہ ہوجائے گی اور ان ریزوں کی دھول فضا میں اس طرح اڑتی پھرے گی جیسے دھنکی ہوئی روئی( القارعہ : ٥) اور اس مقام پر یہ تشبیہ دی گئی ہے کہ جیسے بادل فضا میں اڑتے پھرتے ہیں ویسے ہی پہاڑ بھی اڑتے پھریں گے۔ [٩٦] اَتْقَنَ کا لغوی مفہوم:۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی جس چیز کو بھی بنایا وہ اس کی کاریگری کا بے مثال نمونہ ہے اوراثقل الامر کے معنی کسی چیز کو فنی مہارت کے ساتھ مضبوط بنانا ہے۔ جو مدت بعد تک کام کرنے پر بھی خراب نہ ہوں۔ مثلاً یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے، یہ زمین اور یہ آسمان، یہ سب اللہ نے جس دن سے پیدا کیے ہیں اور جس مقصد کے لئے پیدا کیے ہیں۔ وہ مقصد نہایت عمدگی سے پورا کر رہی ہیں۔ کبھی نہ ان کی چال میں فرق آتا ہے۔ نہ لمحہ بھر کی تقدیم و تاخیر ہوتی ہے اور نہ وہ خراب ہوتے ہیں اور نہ اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں۔ اور یہ چیزیں تاقیام قیامت اسی حال پر برقرار رہیں گے اور ان میں خلل یا بگاڑ صرف اس وقت پیدا ہوگا جب اللہ کو منظور ہوگا اور قیامت قائم ہوگی۔ [٩٧] تمہارے افعال و اعمال سے پوری طرح باخبر ہے اور تمہاری نیتوں سے بھی واقف ہے۔ پھر تمہارے ان اعمال و افعال اور اقوال کا پورا پورا ریکارڈ بھی اس کے پاس محفوظ ہے اور یہی وہ دن ہوگا جب تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔