سورة النمل - آیت 86

أَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا حکمت وربوبیت کی اس نشانی کو نہیں دیکھتے کہ ہم نے تورات کو تو تاریکی قرار دیا تاکہ انسان سوئے (١٥) اور راحت وسکون پائے اور دن کو روشن کیا تاکہ وہ سکون کی جگہ حرکت میں بسر ہوبلاشبہ ارباب ایمان ویقین کے لیے اس میں (اس اختلاف لیل ونہار اور اس کے اثرات میں حکمت ربانی کی) بڑی نشانیاں ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩١] یعنی دن اور رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے اور آتے جاتے رہنے میں ایک نہیں غور و فکر کرنے والوں کے لئے بے شمار نشانیاں ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلالت کرتی ہیں۔ اور یہ نشانیاں ایسی ہیں جنہیں ہر شخص ہر وقت مشاہدہ کرسکتا ہے کیا تم نے کبھی سوچا کہ یہ دن رات کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی راتیں لمبی ہوجاتی ہیں اور کبھی دن اور کبھی اس کے برعکس۔ پھر موسموں کے تغیر و تبدل پر بھی غور کیا تھا کہ سورج اور تمہاری زمین کا باہمی کیا تعلق ہے؟ یہ عظیم الشان تعلق قائم کرنا پھر ہر وقت اس نظام پر کنٹرول رکھنا کیا یہ سب کچھ اتفاقی امور تھے یا کوئی مقتدر ہستی یہ نظام چلا رہی تھی۔ اور اس نظام سے تمہارے کس قدر مفادات وابستہ ہیں۔ دن بھر کام کرنے سے جس قدر بدن کے اجزاء تحصیل ہوتے ہیں اور تھکن ہوجاتی ہے۔ رات کو وہ سب پھر سے پیدا ہوجاتے ہیں اور صبح انسان کی تھکن دور اور وہ تازہ دم ہو کر اٹھتا ہے۔ نیز ایسا مربوط اور حکیمانہ نظام اسی صورت میں ہی قائم رہ سکتا ہے کہ اس کو بنانے، چلانے اور کنٹرول کرنے والی صرف ایک ہی ہستی ہو یا کئی ہستیاں مل کر کیا ایسا حکیمانہ اور مربوط نظام چلاسکتی ہیں۔ اسی ایک رات اور دن کے مسئلہ میں تم غور و فکر کرتے تو تمہیں ہدایت نصیب ہوسکتی تھی۔