سورة النمل - آیت 81

وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ ۖ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچا کرصحیح راہ پر لگاسکتے ہیں آپ صرف انہی لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں سو وہی فرماں بردار ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٥] ہدایت پانے کی چار ممکنہ صورتیں :۔ یعنی ان کافروں کے ہدایت پانے کی چار ہی صورتیں ممکن ہیں۔ جن میں سے دو سننے سے تعلق رکھتی ہیں اور دو دیکھنے سے۔ سننے کی پھر دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ صرف زندہ سن سکتا ہے۔ مردہ نہیں سن سکتا۔ اب چونکہ ان کے دل مر چکے ہیں۔ لہٰذا اس طریقہ سے ان کی ہدایت ناممکن ہوتی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سماعت رکھنے والا تو بات سن سکتا ہے۔ لیکن بہرا نہیں سن سکتا۔ یہ لوگ چونکہ دل کے بہرے ہیں۔ لہٰذا یہ صورت بھی ناممکن ہوئی۔ تیسری صورت یہ تھی کہ ہو تو بہرا مگر کم از کم وہ توبہ تو کرتا ہو۔ اور بات سننے کی کچھ خواہش تو رکھتا ہو۔ اس صورت میں بھی کچھ اشاروں اور انداز خطاب سے اس کے کچھ نہ کچھ پلے پڑ سکتا تھا۔ مگر یہ لوگ تو پیٹھ پھیرے بھاگے جارہے ہیں لہٰذا یہ تیسری صورت بھی ناممکن ہوئی۔ اور چوتھی صورت یہ ہے کہ ہدایت کا طالب اگر کچھ سن سکتا تو دیکھ کر بات سمجھ لے۔ اگر اسے کوئی اشارہ سے راہ بتلائے تو سیدھی کی راہ کی طرف آئے۔ یا کم از کم جو لوگ سیدھی راہ پر چل رہے ہیں انھیں دیکھ کر ہی ان کے پیچھے ہولے۔ اب یہ کفار چونکہ دلوں کے اندھے بھی ہیں۔ لہٰذا ان کے ہدایت پانے کی چوتھی صورت بھی ناممکن ہوگئی۔ لہٰذا ایسے مردہ دل، دل کے بہرے اور اندھے لوگوں سے ہدایت پانے اور اسلام لانے کی توقع رکھنا بے کار ہے۔ [٨٦] یعنی آپ کی نصیحت اور ہدایت صرف ان لوگوں کے حق میں مفید ہوسکتی ہے۔ جو خود بھی ہدایت کے طالب ہوں۔ آپ کی باتوں کو غور سے سنتے ہوں ان کے دل زندہ ہوں۔ دل کے کانوں سے سنتے ہوں۔ اور دل کی آنکھوں سے اللہ کی آیات میں غور و فکر کرتے ہوں۔ اور ایسے ہی لوگ ایمان لاتے ہیں۔ اور ایسے ہی لوگوں سے ایمان لانے اور ہدایت پانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔