قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
آپ ان سے کہہ دیجئے جو بھی آسمانوں اور زمین میں سے کسی کو غیب کا علم نہیں ہے اور نہ ان کو یہ خبر ہے کہ وہ کب اٹھائیں جائیں گے (١٠)
[٧١]غیب اور شہادت کےمختلف پہلو:۔ غیب سے مراد ایک تو ایسی چیزیں ہیں جو کسی خاص انسان کے علم یا مشاہدہ میں نہ آئی ہوں۔ پھر جب وہ اس کے علم میں آجائیں گی تو اس کے لئے غیب نہ رہیں گی۔ مثلاً سڑک پر ایک بس اور کار کا حادثہ ہوگیا جس میں چار آدمی مرگئے۔ پھر جب اسے اس کا علم ہوجائے گا یا وہ خود مشاہدہ کرلے گا تو یہ واقعہ اس کے لئے غیب نہ رہا۔ ایسی خبریں ماضی کی بھی ہوسکتی ہیں۔ حال کی بھی جو کسی کو معلوم ہوتی ہیں اور کسی کے لئے غیب کا درجہ رکھتی ہیں۔ البتہ مستقبل کی خبریں سب کے لئے غیب ہوتی ہیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ جتنے علوم انسان دریافت کرچکا ہے یا جس حد تک دریافت کرچکا ہے۔ وہ سب انسان کے لئے علم الشہادۃ ہیں اور جن علوم تک انسان کی رسائی ہو ہی نہیں ہوسکتی یا نہیں ہوسکی۔ وہ اس کے لئے علم غیب ہیں۔ تیسری قسم ان اشیاء کا علم ہے جن تک انسان کی رسائی نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ آئندہ کبھی ہوسکے گی اور کتاب و سنت کی تصریح کے مطابق یہ پانچ چیزیں ہیں۔ (١) کل کیا کچھ ہونے والا ہے اور فلاں شخص کل کیا کچھ کرے گا، (٢) موت کب آئے اور کہاں آئے گی۔ (٣) رحم مادر میں تغیرات کیونکر واقع ہوتے ہیں۔ (٤) نفع رساں بارش کب ہوگی اور (٥) قیامت کب آئے گی۔ (٣١: ٣٤) ان چیزوں کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ علم غیب صرف اللہ کو ہے:۔ ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔ البتہ اس علم میں سے جتنا وہ انسانی ہدایت کے لئے ضروری سمجھتا ہے اس سے اپنے انبیاء کو مطلع کردیتا ہے۔ جیسے قیامت، بعث بعد الموت، جنت و دوزخ اور روز قیامت کے احوال اور یسے ہی ماضی کے حالات جیسے شرعی اصطلاح میں تذکیربایام اللہ کہتے ہیں۔ انبیاء و اقوام کے حالات اور بعض مستقبل کے متعلق پیشین گوئیاں اور بشارات۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان سے بار بار یہ اعلان کروایا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ ایک مقام پر فرمایا :’’ اے نبی کہہ دو کہ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں بہت بھلائیاں اکٹھی کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی‘‘ (٧: ١٨٨ ) اور انبیا پر چونکہ بموجب تصریح احادیث صحیحہ ابتلا کا دور آتا ہے تو جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء بھی اتنا ہی غیب کا علم جانتے ہیں۔ جتنا اللہ انھیں بتلا دیتا ہے۔ علم غیب اور الوہیت کا باہمی تعلق:۔ علم غیب کو اللہ تعالیٰ سے مخصوص رکھنا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور اس کی وجہ ہے کہ الوہیت اور علم غیب ماننے میں ایک گہرا تعلق ہے۔ قدیم زمانے سے لے کر آج تک انسان نے جس ہستی میں الوہیت کے کسی شائبہ کا گمان کیا ہے اس کے متعلق یہ ضرور خیال کیا ہے کہ اس پر سب کچھ روشن ہے اور کوئی چیز اس پر پوشیدہ نہیں رہتی۔ آپ نے اکثر اولیاء اللہ کے تذکروں میں پڑھا یا سنا ہوگا کہ پیر اپنے مریدوں کے حالات سے آگاہ ہوتا ہے۔ پھر ایسے بے شمار واقعات بھی ان تذکروں میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے سب قصے اس لئے گھڑے جاتے ہیں کہ ان پیروں میں الوہیت کی صفات کو تسلیم کیا جائے اگرچہ زبان سے ان کا اقرار نہ کیا جائے۔ گویا کسی کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا ہی شرک کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ کوئی بزرگ یا پیر خواہ زندہ ہو یا فوت ہوچکا ہو کسی کی فریاد تو اسی صورت میں سن سکتا ہے اور اس کی حاجت روائی اور مشکل کشائی اسی صورت میں کرسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے مریدوں کے احوال سے آگاہ ہو پھر اس کے بعد امور کائنات میں کچھ تصرف بھی رکھتا ہو۔ علم غیب ناقابل تقسیم صفت ہے:۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ کی بعض دوسری صفات مثلاً خلاقیت اور رزاقیت ناقابل تقسیم و تجزیہ ہیں۔ اس طرح علم غیب بھی ناقابل تقسیم و تجزیہ ہیں۔ یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں بزرگ اپنے تمام مریدوں کے حالات سے یا اپنے علاقہ یا شہر کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے اور ان کے غیب کے حالات بھی جانتا ہے۔ یا فلاں ہستی اس علاقہ کی زمین کے مدفون خزانوں کو جانتی ہے، ایسی تمام باتیں شرک میں داخل ہیں۔ [٧٢] آیت کے اس جملہ سے یہ معلوم ہوا کہ اس آیت میں صرف ان ہستیوں کے علم غیب جاننے کی تردید مقصود ہے۔ جن پر بعث بعدالموت کا مرحلہ پیش آنے والا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس سے مراد نہ بت ہوسکتے ہیں نہ حجر و شجر نہ شمس و قمر اور نہ فرشتے۔ ان سے مراد صرف وہی بزرگ ہوسکتے ہیں جن میں کسی نہ کسی رنگ میں الوہیت کی کوئی صفت اور بالخصوص علم الغیب تسلیم کیا جاتا ہے۔