سورة النمل - آیت 62

أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو بے قرار دلوں کا پکار سنتا ہے (جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوکر) اسے پکارنے لگتے ہیں اور وہ ان کے درد دکھ ٹال دیتا ہے ؟ وہ کہ اس نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی ہے؟ افسوس تمہاری غفلت پر) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٥] مشکل اوقات میں اکیلے اللہ کوپکارنا:یہ سوال اس لئے کیا گیا کہ مشر کیا مکہ کو خوب معلوم تھا کہ جب کسی کی جان پر بن جاتی ہے تو اس وقت ان کے معبود کسی کام نہیں آسکتے۔ لہٰذا وہ ایسے آڑے وقتوں میں صرف اکیلے اللہ کو مدد اور نجات کے لئے پکارتے تھے۔(تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ انعام کی آیت نمبر ٤١ کا حاشیہ ) اور ان سے سوال یہ کیا جارہا ہے کہ جب تمہیں اپنے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اس وقت نجات کے لئے اللہ ہی کو پکارتے ہو پھر وہ تمہاری اس مصیبت کو دور بھی کردیتا ہے اس وقت نہ کوئی پتھر کا بت اس کو رفع کرسکتا ہے نہ کوئی دوسرا معبود۔ تو پھر اللہ کی عبادت میں تم انھیں اس کا شریک یا ہمسر کیوں بناتے ہو؟ [٦٦] اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ایک پشت یا نسل کے بعد۔ دوسری پشت یا نسل پہلی کی جانشین بن جاتی ہے تم اپنے اباؤو اجداد کے جانشین بنے اور تمہاری اولادیں تمہاری جانشین بنیں گی۔ اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا آیا ہے اور چلتا جائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہیں زمین میں تصرف و اقتدار بخشتا ہے۔ اور تمہارے بعد یہ اقتدار کسی دوسرے کی طرف منتقل ہوجائے گا اور یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔