فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
بھلا اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب ہم انہیں ایک ایسے دن ( کا سامنا کرنے) کے لیے جمع کر لائیں گے جس کے آنے میں ذرا بھی شک نہیں ہے اور ہر ہر شخص نے جو کچھ کمائی کی ہوگی وہ اس کو پوری پوری دے دی جائے گی، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔
[٢٩]قانون جزاوسزا:۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بہت سے مقامات پر اپنے قانون جزاء و سزا کی وضاحت فرما دی ہے۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ہو، آباؤ اجداد کی نیکی یا بندگی کسی کے کچھ بھی کام نہ آسکے گی۔ نیز اتنا ہی ملے گا جتنا اس نے عمل کیا ہے، نہ کم نہ زیادہ، کمی تو کسی صورت نہ ہوگی اور اللہ اگر چاہے تو عمل کا زیادہ بدلہ بھی دے سکتا ہے۔ نیز اللہ کے حضور کرے کوئی اور بھرے کوئی والا سلسلہ بھی نہیں چل سکتا۔ کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بار اٹھانے کو تیار نہ ہوگا خواہ وہ اس کا کتنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو۔ البتہ جو شخص کوئی ایسا نیکی کا کام جاری کر جائے جو اس کی موت کے بعد جاری رہے تو اس کا ثواب اس کی موت کے بعد بھی بطور حصہ رسدی اسے ملتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے کوئی برائی کا کام جاری کیا تو بطور حصہ رسدی اس کا گناہ بھی اس کے کھاتہ میں جمع ہوتا رہے گا۔ (مسلم، کتاب العلم باب من سن سنہ حسنة أو سیئة .....الخ)