سورة آل عمران - آیت 19

إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بلاشبہ "الدین" (یعنی دین) اللہ کے نزدیک "الاسلام" ہی ہے اور یہ اور یہ جو اہل کتاب نے آپس میں اختلاف کیا (اور گروہ بندیاں کرکے الگ الگ دین بنا لیے) تو (یہ اس لیے نہیں ہوا کہ اس دین کے سوا انہیں کسی دوسرے دین کی راہ دکھلائی گئی تھی یا دین کی راہ مختلف ہوسکتی ہے بلکہ اس لیے کہ علم کے پاسنے کے بعد وہ اس پر قائم نہیں رہے اور آپس کی ضد و عناد سے الگ الگ ہوگئے۔ اور یاد رکھو جو کوئی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتا ہے (اور ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دیتا ہے) تو اللہ (کا قانون جزا) بھی حساب لینے میں سست رفتار نہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٢] دین کیاہے؟دین سے مراد ایسا نظام زندگی یا ضابطہ حیات ہے جسے انسان اس دنیا کے لیے یا دنیا و آخرت دونوں کے لیے بہتر سمجھ کر اختیار کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہودیت، نصرانیت، دہریت، بدھ مت، سکھ، اسلام، کمیونزم، سوشلزم، جمہوریت وغیرہ سب کے سب دین ہیں۔ لیکن اللہ کے ہاں ان میں سے قابل قبول دین صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام کا معنی ہے اللہ کے احکام و ارشادات کے سامنے سرتسلیم خم کردینا اور برضا و رغبت اللہ کا مطیع و منقاد بن جانا ہے اور صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو دنیوی فلاح اور اخروی نجات کا ضامن ہے۔ دنیا میں جتنے بھی انبیاء و رسل مبعوث ہوئے وہ سب دین اسلام ہی کی دعوت دیتے رہے وہ یہی کہتے رہے کہ اللہ کے مطیع و فرمانبردار بندے بن جاؤ۔ اس لحاظ سے ان تمام انبیاء کے پیرو کار مسلم یا مسلمان ہی تھے۔ جنہوں نے بعد میں اپنے لیے الگ الگ نام تجویز کئے، جیسا کہ آج کل مسلمانوں کے بہت سے فرقوں نے بھی اپنے لیے الگ الگ نام تجویز کرلیے ہیں یا بعض مخصوص عقائد و نظریات کی بنا پر دوسروں نے ان کے نام رکھ دیئے ہیں۔ [٢٣] اختلاف سے مراد اہل کتاب کا باہمی اختلاف بھی ہوسکتا ہے اور دوسروں سے بھی۔ مثلاً یہود کے فرقوں کا باہمی اختلاف، عیسائیوں کے فرقوں کا باہمی اختلاف اور مسلمانوں کے فرقوں کا باہمی اختلاف اور دوسرے یہ کہ یہود کا عیسائیوں اور مسلمانوں سے، عیسائیوں کا یہود اور مسلمانوں سے اختلاف۔ [٢٤]فرقہ پرستی کی وجوہ :۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے اختلاف کی اصل وجہ بیان فرما دی اور یہی وجہ قرآن کریم میں اور بھی تین مقامات پر بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ حق انہیں نظر نہیں آتا بلکہ اس کی اصل وجہ اپنی اپنی سرداریاں اور چودھراہٹیں قائم کرنا اور اپنا جھنڈا سربلند رکھنے کی فکر، اسباب مال و جاہ کا حصول ہوتا ہے اور اس معاملہ میں آپ جتنا بھی غور کریں گے فرقہ بندیوں کی بنیاد میں آپ کو ذاتی اغراض و مفادات ہی نظر آئیں گے۔ حب جاہ ومال اورذاتی مفادات :۔مثلاً تورات اور انجیل دونوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث ہونے کا ذکر موجود ہے اور ان کی نشانیاں بھی بیان کردی گئی ہیں اور اہل کتاب کو یہ بھی پوری طرح یقین ہوچکا ہے کہ کتاب میں مذکورہ نشانیوں کے مطابق وہی نبی آخرالزمان اور نبی برحق ہے۔ اب اس نبی کے انکار کی وجہ محض ان کی اپنی سرداریاں ختم ہونا یا بعض دوسرے دنیوی مفادات کا ضائع ہونا تھا۔ ان باتوں کے علاوہ انکار کی کوئی دوسری وجہ نہ تھی۔ لہٰذا اللہ ایسے لوگوں کا جلد ہی حساب چکا دیتا ہے اور اس آیت کا اطلاق مسلمانوں پر بھی بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے اہل کتاب پر ہوا ہے۔