سورة آل عمران - آیت 17

الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(شدت و مصیبت میں) صبر کرنے والے (قول و عمل میں) سچے، خشوع و خضوع میں پکے، نیکی کی راہ میں خرچ کرے والے، اور رات کی آخری گھڑیوں میں (جب تمام دنیا خواب سحر کے مزے لوٹتی ہے) اللہ کے حضور کھڑے ہونے والے اور اس کی مغفرت کے طلب گار

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٠] پرہیزگاروں کی صفات :۔ اس آیت میں ایسے متقی لوگوں کی پانچ صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی صفت صبر ہے۔ صبر ایک جامع اصطلاح ہے جس کا اطلاق عموماً دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی مصیبت کے پیش آنے پر جزع و فزع سے پرہیز کیا جائے اور اسے اللہ کی رضا کی خاطر خوشدلی سے برداشت کیا جائے اور کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالی جائے یا ایسی حرکت نہ کی جائے جو اللہ کی رضا کے خلاف ہو۔ اور دوسرے یہ کہ دین کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب کو خوشدلی سے برداشت کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے جسے دوسرے لفظوں میں استقامت بھی کہتے ہیں اور یہ بھی صبر ہی کی قسم ہے۔ دوسری صفت صادق ہونا ہے۔ صادق کے لفظ کا اطلاق صرف اس شخص پر ہی نہیں ہوتا جو سچ بولنے کا عادی ہو بلکہ اس پر بھی ہوتا ہے جو اپنے تمام معاملات میں راست باز ہو۔ بدعہدیوں اور فریب کاریوں سے بچنے والا ہو۔ تیسری صفت شریعت کے اوامر و نواہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا۔ چوتھی صفت اللہ کے عطا کردہ مال و دولت میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور پانچویں صفت مذکورہ اعمال کو بجا لانے پر پھول جانے کی بجائے اللہ سے استغفار کرنا ہے جس کا بہترین وقت رات کا آخری حصہ ہوتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور فرماتا ہے :’’ کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ کون مجھ سے گناہوں کی معافی چاہتا ہے کہ میں اس کے گناہ بخش دوں؟‘‘ (بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء نصف اللیل)