وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور (دیکھو) اگر تمہیں اس (کلام) کی سچائی میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر (یعنی پیغمبر اسلام پر) نازل کیا ہے۔ تو (اس کا فیصلہ بہت آسان ہے۔ اگر یہ محض ایک انسانی دماغ کی بناوت ہے، تو تم بھی انسان ہو۔ زیادہ نہیں) اس کی سی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن (طاقتوں) کو تم نے اپنا حمایتی سمجھ رکھا ہے ان سب کو بھی اپنی مدد کے لیے بلا لو
[٢٧] قرآن کا چیلنج اور اس کی معجزانہ حیثیت :۔ اس آیت میں خالصتاً کافروں کو خطاب کیا جا رہا ہے کہ اگر تمہیں اس کلام (قرآن) کے اللہ کا کلام ہونے میں شک ہے تو پھر تم سب مل کر اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھاؤ۔ حقیقت حال از خود تم پر واضح ہوجائے گی۔ کافروں کو اس قسم کا چیلنج قرآن کریم میں چار اور مقامات پر بھی کیا گیا ہے یعنی سورۃ یونس کی آیت نمبر ١٤، سورۃ ہود آیت نمبر ١٣، سورۃ بنی اسرائیل آیت ٨٨ اور سورۃ طور کی آیت نمبر ٣٤ میں اور یہ ایسا چیلنج ہے۔ جس کا جواب کفار سے نہ اس دور میں میسر آسکا نہ آج تک میسر آیا ہے اور نہ ہی آئندہ تا قیامت میسر آسکے گا اور قرآن کریم کی یہ اعجازی حیثیت آج تک بدستور مسلم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ انبیاء کو ایسی چیز بطور معجزہ دی جاتی ہے۔ جس کی اس زمانہ میں دھوم مچی ہوئی ہو۔ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ساحری اپنی انتہائی بلندی پر پہنچی ہوئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو ایسے معجزات عطا کئے جن کے آگے فرعون کے بڑے بڑے جادوگروں کو سربسجود ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طب اپنی انتہائی بلندیوں کو پہنچی ہوئی تھی۔ بقراط، ارسطالیس، لقمان اور جالینوس جیسے حکماء کا ڈنکا بجتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو ایسے معجزات عطا کئے جو ان حکماء کی دسترس سے ماورا تھے۔ بھلا کون سا حکیم مردوں کو زندہ کرسکتا تھا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عربی زبان کی فصاحت و بلاغت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے شعراء میں باہمی مقابلے ہوتے تھے اور مقابلہ میں بہترین قرار دیئے جانے والے شعراء کا کلام کعبہ کے دروازہ پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ سبع معلقات اسی دور کی یادگار ہے۔ جو آج بھی متداول ہے۔ ایسے ہی شعراء ادباء اور خطباء کو اللہ تعالیٰ نے چیلنج کیا اور فرمایا کہ اپنے سب مدد گاروں، جنوں یا انسانوں اور اپنے دیوتاؤں اور معبودوں سب کی مدد لے کر اس قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ لیکن یہ سب لوگ ایسا کلام پیش کرنے میں عاجز ثابت ہوئے۔ پھر قرآن کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت تک ہی محدود نہ تھا اس کے مضامین کی ندرت اور حقائق سے نقاب کشائی اور غیب کی اطلاعات ایسے اوصاف تھے جو انسان کی بساط سے باہر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلیل :۔ اب دوسری طرف یہ صورت حال تھی کہ اس قرآن کو پیش کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود امی تھے، لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی استاد بھی نہ تھا۔ ان کی طرف سے اس طرح کا کلام پیش کیا جانا مزید باعث حیرت و استعجاب تھا۔ لہٰذا قرآن کی اس اعجازی حیثیت سے تین باتوں کا از خود ثبوت مہیا ہوجاتا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت (٢) قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت (٣) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول برحق ہونے کا ثبوت۔ اب ہم قرآن کے چند امتیازی پہلوؤں کی وضاحت پیش کریں گے۔ قرآن کے امتیازی پہلو :۔ ١۔ پہلے انبیاء کو جتنے معجزات عطا کئے گئے وہ سب وقتی اور عارضی تھے، کسی نے دیکھے اور کسی نے صرف سنے تھے۔ مگر قرآن کو سب دیکھ سکتے ہیں اور اس وقت سے لے کرتا قیامت دیکھ سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک زندہ جاوید، دائمی اور لازوال معجزہ ہے۔ ٢۔ اس کی اعجازی حیثیت صرف یہی نہیں کہ اس دور کے فصحاء اور بلغاء اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہ گئے تھے۔ بلکہ آج تک اس کی زبان ادب کی زبان تسلیم کی جاتی ہے۔ جو درجہ یہاں ہندوستان میں اردوئے معلیٰ کو حاصل ہے۔ وہی درجہ قرآن کو عام لوگوں کی ادبی زبان پر حاصل ہے اور اس کی عربی زبان پر اتنی گہری چھاپ ہے کہ عربی زبان تغیرات زمانہ کی دستبرد سے آج تک بہت حد تک محفوظ ہے۔ اگر بالفرض محال قرآن کی زبان نہ محفوظ رہتی تو اس کے مقابلہ میں غالباً آج کی عربی زبان پہچانی بھی نہ جا سکتی۔ ٣۔ قرآن کی اعجازی حیثیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ یہ اس ہستی کی زبان سے ادا ہوئی جو فصاحت و بلاغت سے سابقہ شناسائی تو درکنار، لکھنا پڑھنا تک نہ جانتے تھے۔ آپ کی نبوت سے پہلے کی زبان عام امی لوگوں جیسی ہی تھی۔ آپ کو نبوت سے پہلے عبادت گزاری سے تو دلچسپی ضرور تھی۔ مگر عربی ادب سے قطعاً ناآشنا تھے۔ ٤۔ قرآن کی حکمت نظری یہ ہے کہ اس کے دلائل نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ خواہ یہ دلائل توحید پر ہوں یا آخرت کے قیام اور دوبارہ زندگی پر، اور ایسی اشیاء سے پیش کیے گئے ہیں جو ہر انسان کے مشاہدہ اور تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ یہاں نہ تثلیث کا گورکھ دھندا ہے، نہ نیکی اور بدی کے الگ الگ خداؤں کا اور نہ لاتعداد خداؤں کی کارسازی کا۔ لہٰذا اس کو سمجھنے میں کسی کو کوئی ابہام یا دشواری پیش نہیں آتی۔ پھر چونکہ دلائل فصیح زبان میں پیش کئے گئے ہیں۔ لہٰذا اس سے اونٹوں کو چرانے والے اعرابی بھی اسی طرح لطف اندوز ہوتے تھے جس طرح فصحاء اور بلغاء لطف اندوز ہوتے تھے، جب آیت (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ﴾کے الفاظ نازل ہوئے تو ایک اعرابی سجدہ میں گر پڑا اور کہنے لگا میں اس کی فصاحت کو سجدہ کرتا ہوں۔ جب سورۃ کوثر کی تین مختصر سی آیات نازل ہوئیں تو اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ میں جا لٹکایا جہاں معروف عرب شعراء لٹکایا کرتے تھے، تو اس کے نیچے کسی نے لکھ دیا کہ ﴿ما ہٰذَآ قَوْلُ الْبَشَرِ﴾غرض ایسے واقعات بے شمار ہیں اور غالباً اسی وجہ سے کفار قرآن کو سحر بلکہ سحر مبین کہا کرتے تھے۔ اشتراکیت کی ناکامی کی وجہ :۔ ٥۔ قرآن کی حکمت عملی یہ ہے کہ اس کے تمام تر احکام اس کے پیش کردہ نظریہ کے مطابق ہیں اور قابل عمل بھی، خواہ وہ انفرادی حیثیت رکھتے ہوں یا اجتماعی معاملات سے متعلق ہوں یا عبادات سے، معاشرتی احکام ہوں یا معاشی، ملکی خارجہ پالیسی سے متعلق ہوں یا اندرونی پالیسی سے سب کے سب قابل عمل ہیں اور عمل میں لائے جا چکے ہیں۔ اپریل ١٩١٧ء میں روس میں اشتراکی حکومت قائم ہوئی اور پون صدی بھی گزرنے نہ پائی تھی کہ دم توڑ گئی۔ اس ٧٥ سال کے عرصہ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب اشتراکیت کے مرکز روس میں بھی اشتراکی نظریہ کے مطابق حکومت کی جا سکی ہو اور اس ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اشتراکی نظریات انسانی فطرت کے خلاف تھے اور ان میں انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات کی خاطر کچل دیا گیا تھا۔ مگر اسلام کی تعلیم اور اس کے احکام انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ نہ ہی اس کی حکمت نظری اور حکمت عملی میں کوئی تضاد یا تصادم ہے۔ اگر مسلمان صحیح طور پر اسلامی احکام پر کاربند ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ انہیں دنیا میں سر بلندی اور سرخروئی حاصل نہ ہو۔ گویا قرآن کی تعلیم صرف یہی نہیں کہ وہ قابل عمل ہے۔ بلکہ اپنے پیرو کاروں کو بلند مقام پر فائز کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔ ٦۔ قرآن عظیم کا چھٹا امتیاز اس کی جامعیت اور ہمہ گیری ہے جو انسانی زندگی کے جملہ پہلوؤں کو محیط ہے اور یہ ایسی خصوصیت ہے جو نہ کسی دوسری الہامی کتاب میں پائی جاتی ہے۔ نہ کسی دوسرے مذہب میں۔ پھر یہ صرف دنیا کی زندگی کے لیے ہدایت نہیں دیتی بلکہ ما بعد الطبیعیات پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔ ٧۔ قرآن کا ساتواں امتیاز یہ ہے کہ اس کے احکام عام حالات میں ایک اوسط درجہ کی طاقت کے انسان کی استعداد کا لحاظ رکھ کر کیے گئے ہیں۔ پھر معاشرہ کے معذور لوگوں اور بدلتے ہوئے حالات کا لحاظ رکھ کر ان احکام میں رخصت یا رعایت رکھی گئی ہے۔ تاکہ کسی موقعہ پر بھی لوگوں کو اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے میں دشواری پیش نہ آئے۔ بالفاظ دیگر قرآن کریم کا کوئی حکم ایسا نہیں جو تکلیف مالایطاق کے ضمن میں آتا ہو۔ قرآن کا اصل موضوع :۔ ٨۔ قرآن پاک کا آٹھواں اور نہایت اہم امتیاز یہ ہے کہ یہ اپنے موضوع سے ادھر ادھر بالکل نہیں ہٹتا۔ اس کا اصل موضوع انسان کی ہدایت ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلنے سے انسان کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔ قرآن عظیم کا کوئی صفحہ، کوئی سورت، کوئی آیت کوئی سطر نکال کے دیکھ لیجئے، خواہ یہ احکام سے متعلق ہو یا دلائل سے یا سابقہ اقوام کی سرگزشت اور ان کے انجام سے، ہر ہر مقام پر آپ کی ہدایت کے لیے کوئی نہ کوئی سبق موجود ہوگا۔ قرآن میں بے کار بحثوں سے اجتناب :۔ ٩۔ قرآن کا نواں امتیاز ایجاز ہے یعنی ایسی تفصیل میں وہ ہرگز نہیں جاتا جس کا ہدایت سے کچھ تعلق نہ ہو۔ مثلاً قرآن نے ام موسیٰ کی طرف وحی کا تو ذکر کیا مگر اس کا نام نہیں لیا۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو جنت میں ایک درخت کے نزدیک نہ جانے کے حکم کا ذکر کیا مگر درخت کا نام نہ لیا۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اَھِلَّہ، یعنی نئے چاندوں یا اشکال قمر کے متعلق سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اشکال قمر کی وجہ بتانے کے بجائے جواب کا رخ اس طرف موڑ دیا جو انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتی تھی کیونکہ اشکال قمر کی وجہ جاننے میں انسان کی ہدایت کا کوئی پہلو نہ تھا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اصحاب کہف کی تعداد سے متعلق بحث و کرید کرنے سے منع فرمایا۔ کیونکہ ایسی بے کار بحثوں کا ہدایت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا اور ایسی بحثیں صرف وقت کے ضیاع اور بے عملی کا باعث ہی نہیں بنتیں بلکہ بسا اوقات تفرقہ بازی کی بنیاد بھی بن جاتی ہیں۔ ١٠۔ اور قرآن پاک کا دسواں اور اہم امتیاز یہ ہے کہ اس نے کبھی کسی نبی اور رسول کی سیرت و کردار کو داغدار نہیں کیا۔ بائیبل میں بعض انبیاء کی سیرت و کردار پر جس طرح سوقیانہ حملے کیے گئے ہیں۔ اس کا ذکر ہم کسی دوسرے مقام میں کر رہے ہیں۔ ١١۔ اور گیا رہواں امتیاز اس کی شائستہ اور مہذبانہ زبان ہے۔ گالی گلوچ یا فحش الفاظ سے کلیتاً اجتناب کیا گیا ہے۔ زلیخا کو سیدنا یوسف علیہ السلام سے فی الواقع انہی معنوں میں عشق تھا جو مشہور و معروف ہیں لیکن وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو استعمال نہیں فرمایا کیونکہ یہ لفظ سوقیانہ اور بازاری قسم کا ہے جس سے فحاشی کی بو آتی ہے۔ اسی طرح اسلام کے بدترین دشمنوں کا بھی نام نہیں لیا۔ بلکہ ان میں سے بعض کے اوصاف ایسے بیان کردیئے ہیں جس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ ان آیات کا روئے سخن فلاں شخص کی طرف ہے۔ اس کلیہ سے استثناء صرف ابو لہب کے لیے ہے۔ جس کی چند در چند وجوہ ہیں جن کا ذکر مناسب مقام پر سورۃ لہب میں کردیا گیا ہے۔ الغرض قرآن کے امتیازات و عجائب اس قدر ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس قدر غور و فکر اور گہرائی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا جائے، نئے سے نئے پہلو سامنے آنے لگتے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قرآن ایسی کتاب ہے جس کے عجائب ختم ہونے میں نہیں آ سکتے۔