هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
(اے پیغمبر) وہی (حی و قیوم ذات) ہے جس نے تم پر الکتاب نازل فرمائی ہے۔ اس میں ایک قسم تو محکم آیتوں کی ہے ( یعنی ایسی آیتوں کی جو اپنے ایک ہی معنی میں اٹل اور ظاہر ہیں) اور وہ کتاب کی اصل و بنیاد ہیں۔ دوسری قسم متشابہات کی ہے (یعنی جن کا مطلب کھلا اور قطعی نہیں ہے) تو جن لوگوں کے لیے دلوں میں کجی ہے (اور سیدھے طریقے پر بات نہیں سمجھ سکتے) وہ (محکم آیتیں چھوڑ کر) ان آیتوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں جو کتاب اللہ میں متشابہ ہیں۔ اس غرض سے کہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت معلوم کرلیں، حالانکہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (کیونکہ ان کا تعلق اس عالم سے ہے جہاں تک انسان کا علم و حواس نہیں پہنچ سکتا) مگر جو لوگ علم میں پکے ہیں، وہ (متشابہات کے پیچھے نہیں پڑتے وہ) کہتے ہیں "ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے" اور حقیقت یہ ہے کہ (تعلیم حق سے) دانائی حاصل نہیں کرتے مگر وہی جو عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں
[٦] محکمات کیاہیں اور متشابہات کیا؟ محکم آیات وہ ہیں جن کا مطلب واضح ہو، ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہ ہو اور نہ ہی کوئی دوسرا مطلب لیا جاسکتا ہو اور ان سے مراد حلال و حرام سے متعلق احکام اور اوامر و نواہی ہیں، اور یہی چیزیں انسان کی ہدایت کے لیے کافی ہیں۔ چونکہ قرآن کا اصل موضوع انسان کی ہدایت ہے اور محکمات سے انسان کو پوری رہنمائی مل جاتی ہے۔ لہٰذا محکمات کو ہی ام الکتاب کا نام دیا گیا اور یہی وہ آیات ہیں جن کے متعلق قرآن کا دعویٰ ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنا دیا ہے۔ [٧] متشابہات ایسی آیات ہیں جن کا مفہوم ذہن انسانی کی دسترس سے بالا ہوتا ہے۔ انسان کی عقل چونکہ محدود ہے اور کائنات اور اس کے حقائق لامحدود ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ جب ایسے حقائق کو بیان فرماتے ہیں تو ایسے الفاظ استعمال فرماتے ہیں جو حقیقت سے قریب تر ہوں اور انسانی فہم سے بھی۔ ان آیات کا ٹھیک ٹھیک مفہوم چونکہ انسانی ذہن میں نہیں آسکتا اس لیے ان میں اشتباہ کی گنجائش ہوتی ہے اور ہر شخص اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس کی تاویل کرنے لگتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ ایسی آیات عموماً ذات و صفات الٰہی سے متعلق ہی ہوتی ہیں جیسے ﴿ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾اور ﴿ اَلرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ اب اس بات کے پیچھے پڑنا کہ اللہ کا عرش کیسا ہے، وہ خود کیسا ہے اور کس طرح عرش پر بیٹھا ہے۔ اس قسم کی سوچ سراسر گمراہی ہے۔ کیونکہ اللہ نے خود ہی فرما دیا ہے کہ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾ [٨]متشابہات کےپیچھے پڑنےوالے :۔ واضح رہے کہ گمراہ فرقوں کی اکثریت کا ہدف یا محل استدلال ایسی ہی متشابہ آیات ہوا کرتی ہیں مثلاً مذکورہ بالا آیات کی جب جہمیہ اور معتزلہ کو سمجھ نہ آئی اور ازروئے عقل انہوں نے اس کی تاویل کی تو استویٰ کے معنی ہی بدل کر استولیٰ (غالب آنا) کرلیے۔ ان کا نظریہ ہے کہ چونکہ اللہ ہر جگہ موجود ہے لہٰذا ایسی آیات کی تاویل لازم ہے۔ اس آیت میں وہ لوگ عرش (اور ایسے ہی بعض مقامات پر کرسی) کا معنی اقتدار اور استویٰ کے معنی استولیٰ (غالب آنا) کرکے ان آیات کو اپنے عقیدہ کے موافق بنا لیتے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتلا دیا کہ ایسی آیات کی تاویل کا صحیح مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن کریم میں) انہی لوگوں کا ذکر کیا ہے، لہٰذا ان سے بچو۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر آیت مذکور) متشابہات کی دوسری قسم ذومعنی الفاظ ہیں۔ جیسے عربی زبان اور اسی طرح کئی دوسری زبانوں میں بھی، ابن یا بیٹا صرف اپنے حقیقی بیٹے کو ہی نہیں کہتے بلکہ اپنے چھوٹے بھائی، غلام اور نوکر کو بھی از راہ شفقت و پیار بیٹا کہہ دیتے ہیں۔ اسی لفظ سے یہود کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ وہ واقعی اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں اور نصاریٰ کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ عیسیٰ علیہ السلام واقعی اللہ کے بیٹے تھے ان لوگوں کے اس باطل خیال کی قرآن کریم میں کئی مقامات پر تردید کی گئی ہے۔ اسی طرح آغاز کائنات اور زمین و آسمان کی تخلیق کے متعلق سوال کرنے والوں کا جواب دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ حم السجدہ کی آیت نمبر ١٠ میں فرمایا ﴿سَوَاۗءً لِّلسَّاۗیِٕلِیْنَ﴾ (یعنی سوال کرنے والوں کا جواب پورا ہوا) اب چونکہ سواء اور سائل دونوں الفاظ ذومعنی ہیں لہٰذا اشتراکی ذہن رکھنے والوں نے ان الفاظ سے اپنا نظریہ کشید کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمین سب رزق مانگنے والوں کے لیے یکساں ہے۔ لہٰذا یہ انفرادی ملکیت میں رہنے کی بجائے حکومت کی تحویل میں ہونی چاہیئے۔ اب یہ تو واضح ہے کہ اس آیت کا سیاق و سباق قطعاً ایسے نظریہ کی حمایت نہیں کرتا جس کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کی ہستی کے انکار پر اٹھتی ہے۔ تاہم ایسے کج ذہن لوگوں نے مسلمانوں کو اشتراکیت کی طرف مائل کرنے کے لیے ان الفاظ سے اپنے نظریہ کی تائید کی ہے یہ بحث ذرا تفصیل سے اپنے مقام پر ملے گی۔ [٩] متشابہات کا تعلق چونکہ ایسے حقائق سے ہوتا ہے جو انسانی عقل کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں اور انسان کی ہدایت سے بھی ان کا تعلق نہیں ہوتا۔ لہٰذا عقل صحیح اور قلب سلیم رکھنے والے لوگ ان کے درپے نہیں ہوا کرتے۔ ان کا انداز فکر یہ ہوتا ہے کہ چونکہ دونوں قسم کی آیات کا منبع ایک ہی ہے اس لیے دونوں منزل من اللہ، درست اور صحیح ہیں۔ وہ متشابہات پر ایمان اس لحاظ سے رکھتے ہیں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ارشادات ہیں اور اس کی کنہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جس کی وجوہ دو ہیں۔ ایک تو ایسی آیات کا انسانی ہدایت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دوسرے اس کی کنہ کے پیچھے پڑنے میں گمراہی کا احتمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا تفسیر ان لوگوں کے مطابق ہے جو الا اللہ پر وقف کو لازم قرار دیتے ہیں اور یہی تفسیر راجح اور انسب ہے۔ کہ علامت وقف سے بھی ظاہر ہے۔ تاہم بعض حضرات یہاں وقف کو ضروری نہیں سمجھتے اور اس کے بعد کی واو کو عاطفہ قرار دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے معنی یوں بنتا ہے کہ متشابہات کی حقیقت کو اللہ ہی جانتا ہے۔ نیز علم میں رسوخ رکھنے والے لوگ بھی جانتے ہیں لیکن یہ تفسیر اس لحاظ سے درست معلوم نہیں ہوتی کہ بے شمار متشابہات ایسے ہیں جن کی حقیقت اللہ کے علاوہ کسی راسخ فی العلم کو بھی معلوم نہیں ہوسکتی۔ جن میں سرفہرست تو حروف مقطعات ہیں۔ علاوہ ازیں اور بھی مثالیں اوپر گزر چکی ہیں جو بالخصوص اللہ کی ذات و صفات سے تعلق رکھتی ہیں۔ البتہ ذومعنی الفاظ والی آیات کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ ﴿رَاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ﴾ اس کی حقیقت کو پاسکیں۔