وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰ أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اور (انہیں یہ قصہ سناؤ) جب آپ کے رب نے موسیٰ کو پکارا کہ تم ایک ظالم قوم کے پاس جاؤ
[٨] آپ کی اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے پس منظر کا تقابل:۔ آیات تکوینیہ کی طرف توجہ دلانے کے بعد آگے آیات تنزیلیہ کا آغاز ہو رہا ہے۔ اور اس سلسلہ میں اس سورت میں سات اقوام کا ذکر کیا گیا ہے۔ جنہوں نے اپنے رسول کی دعوت قبول کرنے کے بجائے سرکشی کی راہ اختیار کی تو ان پر عذاب الہٰی نازل ہوا اور صفحہ ہستی سے ان اقوام کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔ اور ان آیات کا آغاز حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر سے کیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آغاز رسالت میں جن حالات سے سابقہ پیش آیا تھا وہ ان حالات سے سنگین تر تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش آئے تھے۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خاندان کے فرد تھے جو کعبہ کی تولیت کی وجہ سے عرب بھر میں مع و محترم شمار ہوتا تھا جبکہ موسیٰ علیہ السلام اس قوم کے فرد تھے جو فرعون کی غلام تھی۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف مبعوث کیا گیا۔ جس کے ہاں آپ نے پرورش پائی تھی۔ پھر آپ نے نادانستہ طور پر آل فرعون کے ایک آدمی کو بھی مار ڈالا تھا اور فرعونی حکومت کی طرف سے اس قتل کی سزا کے ڈر سے آپ وہاں سے ترک وطن پر مجبور ہوئے تھے گویا آپ فرعون کے ممنون احسان بھی تھے پھر اس کے مفرور مجرم بھی تھے۔ تیسرے یہ کہ فرعون ایک عظیم الشان سلطنت کا فرمانروا، ظالم و جابر اور اپنی خدائی کا دعویٰ رکھنے والا حکمران تھا۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے وہ یا آپ کے ہمسر تھے یا معاشرتی لحاظ سے کم تر درجہ رکھتے تھے۔ گویا موسیٰ علیہ السلام کے حالات سے آغاز میں دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ تسلی دی جارہی ہے کہ بعض سابقہ انبیاء کو آپ سے بھی زیادہ سنگین حالات میں دعوت دین کا فریضہ سرانجام دینا پڑا تھا۔ لہٰذا آپ کو ان کفار مکہ کی معاندانہ روش سے اتنا زیادہ افسردہ اور غمگین نہیں رہنا چاہئے۔