وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
اور جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنادے
[٩٢]امارت کی مشروط آرزواور سیاسی لیڈرو ں کی تاویل :۔ یہ بھی دعا کا اگلا حصہ ہے۔ یعنی ہماری بیویوں اور اولاد کو نیک اور پرہیز گار بنا اور پھر ہمیں ان سے بڑھ کر پرہیزگار بنا کہ ہم خود ان کے امام اور پیش رو ثابت ہوں۔ پھر یہ دعا صرف ازواج و اولاد تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ ہمیں اتنا نیک اور پرہیزگار بنادے کہ ہم دوسرے متقین کے لئے رہبر اور نمونہ بن جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندوں کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نیکی اور پرہیزگاری کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی آرزو اور اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس مقصد کے لئے اور اس میدان میں امامت یا حکومت تک کے لئے آرزو کرنا یا دعا کرنا صرف جائز ہی نہیں تھا بلکہ ضروری ہے۔ جبکہ حب مال یا حب جاء کی غرض سے طلب امارت بے شمار صحیح احادیث کی رو سے ممنوع ہے لیکن موجودہ جمہوری دور کے بعض سیاسی لیڈر اسی آیت سے طلب امارت کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ وہ چاہتے یہ ہیں کہ متقی حضرات تو ان کی رعیت بنیں اور یہ سیاسی لیڈر، جیسے بھی کردار کے وہ مالک ہوں، ان کے حاکم بن جائیں۔ ایسی کج فکری خالصتاً کسی پکے دنیا دار کے ذہن کا نتیجہ ہی ہوسکتی ہے۔