إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
مگرجس شخص نے توبہ کی، ایمان لایا اور عمل صالح کیا، تو خدا اس کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے (١٧)۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
[٨٧] اسلام لانےکے فائدے :۔ یعنی ایسے شدید جرم کرنے والے کافروں میں سے بھی جو شخص ایمان لائے گا۔ اللہ اس کے سابقہ گناہوں کو کلیتاً معاف فرما دے گا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا : یارسول اللہ ! ہم نے جو گناہ جاہلیت کے زمانہ میں کئے ہیں کیا ہم سے ان کا مواخذہ ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص اسلام لایا پھر نیک عمل کرتا رہا اس سے جاہلیت کے گناہوں کا مواخذہ نہیں ہوگا۔“ ( بخاری۔ کتاب استتابۃ المرتدین ) ٢۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ ایک شخص ( دوران جہاد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا۔ وہ اپنا چہرہ لوہے کے ہتھیاروں سے چھپائے ہوئے تھا۔ کہنے لگا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں پہلے کافروں سے لڑائی کرو یا اسلام لاؤں؟ آپ نے فرمایا : ” پہلے اسلام لاؤ، پھر لڑائی کرو“ تو وہ مسلمان ہوگیا پھر لڑنے لگا حتیٰ کہ شہید ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دیکھو اس نے عمل تو تھوڑا کیا مگر ثواب بہت زیادہ پایا۔“ ( بخاری۔ کتاب الجہاد ۔ باب عمل صالح قبل القتال ) ٣۔ حضرت حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ” میں نے جاہلیت کے زمانہ میں جو اچھے کام کئے تھے مثلاً قرابت داروں سے حسن سلوک، غلام کو آزاد کرنا یا صدقہ و خیرات دینا۔ کیا مجھے ان کا اجر ملے گا ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیوں نہیں۔ تم جو اسلام لائے ہو تو سابقہ نیکیوں کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام لائے ہو۔“ ( بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب شراء المملوک من الحربی) برائیاں نیکیوں میں کیسےبدلتی ہیں ؟:۔ ان احادیث سے نتیجہ نکلا کہ اسلام لانے کے دو بڑے فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ سابقہ سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسلام لانے والا گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے آج ہی پیدا ہوا اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کے سابقہ نیک اعمال کا اسے اجر بھی ملے گا جبکہ بحالت کفر مرنے پر اسے نیک اعمال کا اسے اجر نہیں مل سکتا تھا۔ ایک تو یہ صورت ہوئی دوسری صورت یہ ہے کہ اسلام لانے والے کے اعمال نامہ میں فی الواقع اس کی برائیوں کی جگہ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جو شخص اعمال صالحہ کا خوگر ہوجائے اس سے برائیوں کی عادت چھوٹ جاتی ہے اور سابقہ برائیاں معاف کردی جاتی ہے۔ اسی طرح جس معاشرہ میں نیکیاں رواج پا جائیں۔ برائیاں از خود مٹتی چلی جاتی ہیں۔