وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
اے نبی ہم نے آپ کو تو بس خوش خبری سنانے اور ڈرانے والابناکربھیجا ہے
[٦٩]کافروں اورمسلمانوں کےلیے آپ کی ذمہ داری کی نوعیت :۔یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کام نہیں کہ آپ لوگوں کو راہ راست پرلانے کے لئے مجبور کریں۔ نہ ہی یہ کام ہے کہ ایمان نہ لانے والوں کو کچھ سزا دیں اور ایمان لانے والوں کو مالی امداد بہم پہنچائیں۔ بلکہ آپ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ سب لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کردیں۔ منکرین حق کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں اور ایمان لانے والوں کو ان کے اعمال صالحہ کے اجر کی خوشخبری دیں۔ بس آپ کا کام اتنا ہی ہے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایسا خطاب دراصل کافروں کو دعوت دینے کی حد تک ہے۔ ورنہ جو لوگ ایمان لے آئیں تو ان کے لئے نبی کا کام اتنا ہی نہیں کہ آپ انہیں بھی بس ان کے اعمال صالحہ کی خوشخبری دے دیں۔ بلکہ ان کی تعلیم، ان کی تربیت، اور تزکیہ نفس سب کچھ آپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور قرآن کریم نے اس مضمون کو چار مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے اور آپ کی مسلمانوں کے لئے چار ذمہ داریاں ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ ان کو قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں، ان کا تزکیہ نفس کریں۔ انہیں کتاب کی بھی تعلیم دیں اور حکمت بھی۔ ( مزید تشریح کے لئے دیکھئے ٢: ١٢٩، ٢: ١۵١، ٣: ١٦٤)