سورة الفرقان - آیت 54

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور وہی (حکیم وقدیر) جس نے پانی (نطفے) سے انسان کو پیدا کیا پھر (اس رشتہ پیدائش کے ذریعے سے) اسے نسب اور صہر رشتہ رکھنے والا بنایا، اور تیرا رب قدرت والا ہے (١٢)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٧] نطفہ سے مرد اور عورت کی تخلیق ۔ نیزان کی جسمانی ساخت اور کارکردگی میں اللہ کی محیر العقول تقدیر:۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ کیا کم ہے کہ اس نے پانی کی ایک بوند سے انسان جیسی محیرالعقول مشینری رکھنے والی مخلوق پیدا کردی۔ مزید یہ کہ اس پیدا ہونے والے بچہ کو جو مختلف نوعوں میں تقسیم کردیا۔ کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی۔ اور یہ دونوں انسان ہونے کے اعتبار سے تو یکساں ہیں۔ مگر اپنی جسمانی ساخت اور خصوصیات میں بہت سے امور میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تاہم اس اختلاف کے باوجود وہ دونوں مل کر ایک ہی مقصد پورا کرتے ہیں اور وہ ہے بقائے نسل انسانی۔ ان دونوں نوع کے ملاپ سے دنیا میں ہزاروں مرد اور عورتیں پیدا ہو رہے ہیں۔ پھر اس اختلاف کی بنا پر رشتہ داریاں بھی دو طرح کی بن جاتی ہیں۔ ایک وہ جن کے ہاں عورتیں بہو بن کر آتی ہیں اور یہ نسبی رشتہ داری ہے۔ جیسے بیٹا، پوتا، پڑوتا وغیرہ اور دوسرے وہ جن کے ہاں ہماری بیٹیاں، پوتایاں وغیرہ بہو بن کر جاتی ہیں یہ سسرالی رشتہ داریاں ہیں۔ پھر ان دونوں قسم کی رشتہ داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آجاتا ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو لڑکے اور لڑکی کی جسمانی ساخت میں صرف شرمگاہوں کا فرق ہوتا ہے جس سے ہم یہ تمیز کرتے ہیں کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ پھر کچھ اختلاف بلوغت پر نمایاں ہوتے ہیں۔ جیسے لڑکے کو احتلام ہونا اور داڑھی اور مونچھوں کے بالوں کا اگنا اور لڑکیوں کو حیض آنا اور اس کے پستانوں میں ابھار کا پیدا ہونا۔ پھر کچھ امور ایسے ہیں جن کا تعلق استقرار حمل سے ہوتا ہے جیسے عورت کے پستانوں میں دودھ کا اتر آنا۔ کیونکہ جب تک حمل قرار نہ پائے دودھ بنتا ہی نہیں۔ پھر جوانی ڈھلنے پر عورت کا حیض آنا از خود بند ہوجاتا ہے اور مرد میں مادہ منویہ کی پیدائش از خود رک جاتی ہے۔ اور دونوں کے شہوانی جذات افسردہ پڑنے لگ جاتے ہیں اور یہ ایسے لگے بندے قوانین فطرت ہیں جن میں کبھی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ ان امور پر غور کرنے سے بے اختیار یہ بات زبان پر آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز سے جس قسم کا کام لینا ہوتا ہے اس پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے۔