سورة الفرقان - آیت 45

أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا (اے مخطاب) تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب کس طرح سائے کو پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس کو ایک ہی حالت پر ٹھہرائے رکھتا، پھر ہم نے اس سائے پر سورج کو علامت بنادیا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٧]سایوں کےبتدریج گھٹنے بڑھنےکےخوشگوار اثرات :۔ سایوں کا سورج سے گہرا تعلق ہے۔ طبعی اصول یہ ہے کہ روشنی کی شعاعیں یا کرنیں ہمیشہ صراط مستقیم میں سفر کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے جہاں بھی روشنی ہوگی چیزوں کا سایہ ہوگا۔ اب اگر کسی چیز کا سایہ روشن چیز سے کم درجہ پر واقع ہوگا تو سایہ لمبا ہوگا اور زاویہ بڑھتا جائے گا تو سایہ چھوٹا ہوتا جائے گا۔ حتیٰ کہ اگر یہ سایہ ٩٠ درجہ پر پہنچ جائے تو ہر چیز کا سایہ اس کے قدموں پر پڑے گا اور بہت چھوٹا رہ جائے گا۔ حتیٰ کہ یہ غائب بھی ہوسکتا ہے۔ اب چونکہ روشنی کا مستقل ۔۔۔۔ بااعتماد اور منظم منبع یہی سورج ہی ہے۔ لہٰذ ا سایوں کے مستقبل منبع کا ذکر کیا اور یہ ذکر اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ہر قسم کی نباتات اور تمام جاندار اشیاء کی تربیت اور نشوونما پر اثر انداز ہونے کی چیز سورج کی روشنی یا دھوپ اور سایہ ہی ہوتا ہے اب اگر کسی چیز پر ہمیشہ دھوپ پڑتی رہے یا کوئی چیز ہمیشہ سایہ میں رہے تو اس کی تربیت اور نشوونما کبھی درست طور پر نہ ہوسکے گی۔ دھوپ اور سایہ دونوں ہی اللہ کی نعمتیں ہیں اور دونوں سے ہر چیز کی زندگی کا گہرا تعلق ہے۔ اگر ہمیشہ سایہ ہی رہتا تو زندگی کی یہ بہاریں کبھی قائم نہ رہ سکیں۔