لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، تم اسے ظاہر کرو، یا پوشیدہ رکھو ہر حال میں اللہ جاننے والا ہے۔ وہ تم سے ضرور اس کا حساب لے گا۔ اور پھر یہ اسی کے ہاتھ ہے کہ جسے چاہے بخش دے، جسے چاہے عذاب دے، وہ ہر بات پر قادر ہے
[٤١٣]دل کےخیالات پر گرفت نہیں:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات کا ذکر ہوا ہے۔ (i) مِلک، یعنی وہ ہر چیز کا مالک ہے، (ii) علم، یعنی اس کا علم اتنا وسیع ہے کہ دلوں کے راز تک جانتا ہے، (iii) قدرت، یعنی اسے سزا دینے اور معاف کردینے کے کلی اختیارات حاصل ہیں اور یہی تین صفات ذرا تفصیل کے ساتھ آیت الکرسی میں بیان کی گئی ہیں جس سے مقصود یہ ہے کہ عبادات اور معاملات سے متعلق جو بے شمار احکام دیئے گئے ہیں۔ مسلمان کو اس کی تعمیل میں نہ حیلوں بہانوں سے کام لینا چاہئے اور نہ سینہ زوری اور ظلم و زیادتی سے۔ بلکہ اللہ سے ڈر کر اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ کسی بھی ظاہری یا پوشیدہ امر میں انسان اس کی نافرمانی کرکے نجات نہیں پاسکتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے ہمیں غمزدہ بنا دیا ہم نے خیال کیا کہ اگر کسی کے دل میں گناہ کا خیال بھی آئے تو اس کا بھی حساب ہوگا کہ پھر معلوم نہیں کہ اس کی معافی ہو یا نہ ہو، اور یہ بات انسان کے اختیار سے باہر ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا : کہو! ہم نے (اللہ کا ارشاد) سنا اور ہم اطاعت کرتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی کہا تو پھر ﴿ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ﴾ سے لے کر اگلی دو آیات نازل ہوئیں اور ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ نے اس آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر۔۔) یعنی دل میں پیدا ہونے والے خیالات پر گرفت معاف کردی گئی۔