لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
مسلمانو۔ جب پیغمبر اسلام تم میں سے کسی کو بلائیں تو ان کے بلانے کو آپس میں ایسی (معمولی) بات نہ سمجھو، جیسے تم میں سے ایک آدمی دوسرے آدمی کو بلایا کرتا ہے، اللہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو (مجمع سے) چھپ کرکھسک جاتے ہیں۔ حکم رسول کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو، ان پر کوئی آفت آپڑے یادردناک عذاب سے دوچار ہوں (٤٦)۔
[١٠٠] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب واحترام :۔ اس جملہ کی تین مطلب ہوسکتے ہیں اور تینوں ہی دوست ہیں۔ ایک یہ کہ رسول کو ایسے نہ بلایا کرو جیسے تم ایک دوسرے کو بے تکلفی سے بلاتے رہتے ہو۔ بلکہ انہیں بلانا ہو تو اس کا پورا ادب و احترام ملحوظ رکھا کرو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر رسول تمہیں بلائے تو ایسا نہ سمجھو جیسے کوئی عام آدمی بلا رہا ہے کہ جی چاہے تو جواب دے دو یا نہ دو یا اگر جی چاہے تو ان کے پاس حاضر ہوجاؤ اور چاہے تو نہ آؤ۔ بلکہ ان کے بلانے پر تم پر واجب ہوجاتا ہے کہ تم ان کے پاس حاضر ہوجاؤ اور ان کی بات سنو پھر اسے بجا لاؤ۔ اور یہ مطلب قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ ﴾ (٨: ٢٤) سے ماخود ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : حضرت سعید بن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نماز پڑھ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے گزرے اور مجھے بلایا۔ میں نماز پڑھ کر حاضر ہوا تو مجھے فرمایا : تم میرے بلانے پر کیوں نہ آئے؟ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) اس حدیث سے علماء نے یہ مسئلہ استباط کیا ہے کہ اگر کوئی شخص فریضہ نماز بھی ادا کر رہا ہو تو رسول کے بلانے پر اسے نماز تک چھوڑ کر فوراً حاضر ہوجانا چاہئے۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو یوں نہ سمجھو جیسے کسی عام آدمی کی دعا ہے۔ بلکہ تمہارے حق میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تمہاری دنیا اور تمہاری آخرت سنوارنے کا موجب بن سکتی ہے اسی طرح ان کی بددعا تمہیں تباہ و برباد بھی کرسکتی ہے۔ لہٰذ ان کی اطاعت کرکے انہیں خوش رکھنے اور ان کی دعا لینے کی کوشش کیا کرو۔ [١٠١] دن کے پچھلے حصہ (اصیل ) میں تو تین نمازیں آجاتی ہیں۔ مگر پہلے حصے میں ایک بھی فرض نماز نہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ دن کے پہلے حصہ میں کوئی ایسی وحی آجاتی جس سے مسلمانوں کو فوری طور پر آگاہ کرنا ضروری ہوتا تھا۔ اس غرض سے مسجد نبوی میں اذان کہہ کر مسلمانوں کو بلا لیا جاتا۔ آپ وحی سناتے۔ خطبہ ارشاد فرماتے اور حالات حاضرہ سے متعلق بعض دفعہ مشورے بھی مقصود ہوتے تھے اور بعض دفعہ اللہ کے احکام کی فوری نشرواشاعت ۔۔۔۔۔۔اسی سلسلہ میں منافق بھی ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ضرور ہوجاتے اور یہ بات نفاق کا شبہ دور کرنے کی خاطر ان کے لئے ضروری بھی ہوتی تھی۔ حاضری لگوالینے کے بعد وہ اس انتظار میں رہتے تھے کہ موقع ملے تو چپکے سے کھسک جائیں اور بمصداق جوئندہ یابندہ وہ کھسک بھی جایا کرتے تھے۔ اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کو خطاب کیا جارہا ہے۔ [١٠٢]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پرعذاب کی وعید :۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے پر منافقوں کا آپ کی دعوت کو ناگوار محسوس کرنا، کھسک جانے کی کوشش کرنا۔ آپ کے نصائح پر توجہ نہ دینا یا آپ کی دعوت کو کچھ اہمیت نہ دینا۔ سب رسول کی مخالفت میں آتی ہیں۔ تاہم رسول کی مخالفت کا دائرہ اس سے وسیع تر ہے اور منافقوں کے لئے یہ فتنہ کیا کم ہے کہ ان کے دلوں میں کفر و نفاق جڑ پکڑ جائے اور انھیں اپنی ایسی کرتوتیں بھی اچھی نظر آنے لگیں۔ تاہم آیت کے اس حصہ کا حکم عام ہے جو منافقوں اور مسلمانوں سب کو شامل ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے۔ رہا فتنہ کا مفہوم تو اس کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ سب سے واضح صورت مسلمانوں کا داخلی انتشار اور ان کا اجتماعی قوت کا کمزور ہونا اور ان پر ظالم اور جابر حکمران کا مسلط ہوجانا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب احکام شرعیہ کو پس پشت ڈال دیا جائے۔