سورة النور - آیت 49

وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر کوئی معاملہ ایسا ہوتا ہے جس میں حق ان کے ساتھ ہوتا ہے تو پھر (کبھی رخ نہیں پھیرتے اور) اللہ کے رسول کے پاس سرجھکائے دوڑے چلے آتے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٧]اللہ اور رسول کی بات سے اعراض منافقت ہے:۔ ذعن کے معنی نہایت فرمانبردار بن کر ساتھ ہو لینا یا اشاروں پر چلنا ہے۔ اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ منافق لوگ اللہ اور اس کے بلانے یا اس کے ہاں جانے سے اعراض صرف اس وقت کرتے ہیں جب انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کا حق دبا رہے ہیں اور اگر رسول کے پاس گئے تو وہ یقیناً حق کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ لہٰذا ہمیں اس کے پاس جانے سے نقصان پہنچ جائے گا لیکن جب انھیں معلوم ہوکہ ہم حق پر ہیں یا دوسرے کی طرف سے ان کا حق نکلتا ہے تو بلا چون و چرا نہایت فرمانبردار بن کر ساتھ ہو لیتے ہیں اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ رسول حق کے مطابق ہی فیصلہ کرے گا۔ ایسے لوگ دراصل رسول کی نہیں اپنے فائدے کی اتباع کرتے ہیں۔ پہلے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٤٣ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے کہ ایک منافق اور ایک یہودی کے درمیان کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ جس میں یہودی حق پر تھا۔ اور یہ چاہتا تھا کہ اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے چلیں۔ جبکہ منافق یہ چاہتا تھا کہ یہ مقدمہ یہود کے سردار کعب بن اشرف کے پاس لے جائیں۔ اس مقدمہ کی تفصیل مذکورہ حاشیہ میں دیکھ لی جائے۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت بھی اسی سلسلہ میں نازل ہوئی تھی۔ شریعت کی حسب پسند باتوں پرعمل کرنے والابھی منافق ہے: ۔اس آیت سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص شریعت کی مفید مطلب باتیں تو بہ خوشی کرے مگر جو باتیں اس کی اغراض و خواہشات یا مفاد کے خلاف پڑتی ہوں ان سے اعراض کرے وہ مومن نہیں۔ بلکہ منافق ہوتا ہے اور اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ دراصل اپنی خواہشات کا پیروکار ہوتا ہے۔ شریعت کا نہیں ہوتا۔