سورة المؤمنون - آیت 101

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جب وہ گھڑی آجائے گی کہ نر سنگا پھونکا جائے (یعنی تمام انسانی ہستیوں کو دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے اور اکٹھا ہوجنے کا حکم ہو) تو اس دن نہ تو ان لوگوں کی باہمی رشتہ داریاں باقی رہیں گے نہ کوئی ایک دوسرے کی بات ہی پوچھے گا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٨]قیامت کے دن سب رشتہ داریاں بھول جائیں گی:۔ جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو یہی دن مردوں کا اپنی قبروں سے جی کر اٹھنے اور اللہ کے حضور حاضر کئے جانے کا دن ہوگا اسی دن کو قیامت کا دن کہا جاتا ہے یہ دن چونکہ ہمارے موجودہ حساب کے مطابق پچاس ہزار برس کا ہوگا۔ لہٰذا اس مدت میں انسان کو بہت سی قسم کے حالات اور واقعات سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اس آیت میں جو کیفیت بیان کی گئی ہے۔ وہ زندہ ہونے کے بعد ابتدائی کیفیت ہے۔ اس وقت دہشت اور ہولناکی اس قدر زیادہ ہوگی کہ ہر ایک کو اپنی اپنی ہی پڑی ہوگی سب رشتہ داریاں بھول جائیں گے۔ پھر جبکہ ہر آدمی اپنے حقیقی رشتہ داروں سے بھی الگ رہنے اور دور بھاگنے کی کوشش کرے گا ایک دوسرے کا حال پوچھنا تو دور کی بات ہے۔