يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
وہ جسے چاہتا، حکمت دے دیتا ہے، اور جس کسی کو حکمت مل گئی تو یقین کرو، اس نے بڑی ہی بھلائی پالی اور نصیحت حاصل نہیں کرتے، مگر وہی لوگ جو عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں
[٣٨٥] حکمت کیاچیزہے؟حکمت کی کئی تعریفیں کی جا سکتی ہیں اور وہ اپنے اپنے مقام پر سب ہی درست ہیں۔ مثلاً ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ''رَاسُ الْحِکْمَۃ مَخَافَۃُ اللّٰہِ " یعنی سب سے بڑی حکمت تو اللہ کا خوف (تقویٰ) ہے کیونکہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو انسان کو بچتے بچاتے سیدھی راہ پر گامزن رکھنے والی ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف الرسالہ میں بے شمار دلائل سے ثابت کیا ہے کہ جہاں بھی قرآن کریم میں کتاب و حکمت کے الفاظ اکٹھے آئے ہیں تو وہاں حکمت سے مراد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور حکمت کا لغوی مفہوم کسی کام کو ٹھیک طور پر سر انجام دینے کا طریق کار ہے۔ یعنی کسی حکم کی تعمیل میں صحیح بصیرت اور درست قوت فیصلہ ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس کے پاس حکمت کی دولت ہوگی وہ کبھی شیطانی راہ اختیار نہیں کرے گا اور شیطانی راہ یہ ہے کہ انسان اپنی دولت سنبھال سنبھال کر رکھے۔ اس میں سے کچھ خرچ نہ کرے بلکہ مزید دولت بڑھانے کی فکر میں لگا رہے۔ اس طرح شاید وہ دنیا میں تو خوشحال رہ سکے مگر آخرت بالکل برباد ہوگی۔ لہٰذا اصل دانشمندی یہ ہے کہ انسان جہاں تک ممکن ہو خرچ کرے۔ اس دنیا میں اللہ اسے اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی بہت بڑا اجر و ثواب عطا فرمائے گا اور یہی سب سے بڑی دولت اور حکمت ہے۔ ایک دن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے دوران فرمایا کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں۔ (بخاری، کتاب العلم، باب مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّھْہُ فِیْ الدِّیْنِ) ’’اور میں بانٹنے والا ہوں اور دینے والا اللہ ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی مخالف اسے نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آئے۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ، باب قولہ صلي الله عليه وسلم لایزال طائفة من أمتی ظاھرین علی الحق لایضرھم من خالفھم) اس آیت اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دین کی سمجھ آ جانا ہی حکمت اور سب سے بڑی دولت ہے۔