سورة المؤمنون - آیت 52

وَإِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور دیکھو یہ تمہاری امت دراصل ایک ہی امت ہے اور تم سب کا پروردگار میں ہی ہوں، پس (انکار و بدعملی کے نتائج سے) ڈرو (ان تمام پیغمبروں کے ذریعہ سے جو تعلیم دی گئی وہ یہی تعلیم تھی )

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٦] امة واحدۃ کا مفہوم:۔ امت سے مراد ایسا گروہ ہے جو ہم عقیدہ و ہم خیال ہو۔ اور یہاں تمہاری امت سے مراد انبیاء و رسل کی جماعت بھی ہوسکتی ہے اور ان کے ساتھ ان پر ایمان لانے والے بھی۔ اور یہ پوری کی پوری جماعت متحد العقیدہ تھی۔ یعنی ان سب کی اصولی تعلیم اور اصولی عقائد ایک ہی جیسے رہے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ (١) اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق و مالک ہے لہٰذا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کی ذات و صفات اور عبادات میں کسی دورے کو شریک نہ کیا جائے۔ (٢) یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ مرنے کے بعد ہر انسان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اسے اللہ کے حضور پیش ہونا پڑے گا۔ دنیا میں جو اعمال وہ کرتا رہا اس کے متعلق اس سے باز پرس ہوگی۔ پھر ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ لہٰذا تمہیں صرف مجھ سے ڈرنا چاہئے۔ (٣) کسب حرام سے مکمل طور پر اجتناب یعنی کسی صورت میں بھی دوسرے کے حقوق یا اموال پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے اور (٤) نیک اعمال بجا لائے جائیں یہ چار باتیں ایسی ہیں جو اصولی نوعیت کی ہیں اور ان کا حکم ہر نبی کو دیا جاتا رہا ہے اور انہی باتوں کا نام دین ہے۔ رہے جزئی احکام جن کا تعلق بالخصوص شق نمبر ٣ سے ہے تو اس میں انبیاء کی شریعتوں میں اختلاف بھی رہا ہے۔