أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
کیا تم میں سے کوئی آدمی بھی یہ بات پسند کرے گا کہ اس کے پاس کھجوروں کے درختوں اور انگوروں کی بیلوں کا باغ ہو۔ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں۔ نیز اس میں اور بھی ہر طرح کے پھل پھول پیدا ہوتے ہوں۔ پھر ایسا ہو کہ جب بڑھاپا آجائے اور ناتواں اولاد اس آدمی کے چاروں طرف جمع ہوں، تو اچانک ایک جھلستی ہوئی آندھی چلے اور (آن کی آن میں) باغ جل کر ویران ہوجائے؟ اللہ ایسی ہی مثالوں کے پیرایہ میں تم پر (حقیقت کی) نشانیاں واضح کردیتا ہے تاکہ غو و فکر سے کام لو۔
[٣٨٢]نیک اعمال کوبرباد کرلینے والے کی مثال:۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا : صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا '' واللہ اعلم'' حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غصہ سے کہا (یہ کیا بات ہوئی) صاف کہو کہ ہمیں معلوم ہے یا نہیں معلوم۔ اس وقت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے : امیر المومنین! میرے دل میں ایک بات آئی ہے۔ آپ نے کہا : بھتیجے بیان کرو اور اپنے آپ کو چھوٹا نہ سمجھو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے : ’’اللہ نے یہ عمل کی مثال بیان کی ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ’’ کون سے عمل کی؟‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کا کچھ جواب نہ دے سکے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ ایک مال دار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کردیتا ہے وہ گناہوں میں مصروف ہوجاتا ہے اور اس کے نیک اعمال سب کے سب فنا ہوجاتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یعنی ایسے شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اسے بڑھاپے میں باغ کی پیداوار کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے اور از سر نو باغ لگانے کا موقع بھی نہیں ہوتا اور اس کے بچے اس کی مدد بھی نہیں کرسکتے وہ تو خود اس سے بھی زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ لہٰذا کوئی نیک عمل مثلاً خیرات کرنے کے بعد اس کی پوری پوری محافظت کرنا بھی ضروری ہے۔ یعنی احسان جتانے، بیگار لینے یا شرک کر بیٹھنے سے اپنے باغ کو جلا نہ ڈالے کہ آخرت میں اسے اپنے اعمال میں سے کوئی چیز بھی ہاتھ نہ آئے جبکہ اس کو اعمال کی شدید ضرورت ہوگی اور اس حدیث میں شیطان کے غالب کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان حصول مال میں اس قدر مگن ہوجاتا ہے کہ اللہ کی اطاعت سے لاپروا ہوجاتا ہے۔ یا ایسی نافرمانیاں اور کفر و شرک کے کام کرتا ہے جس سے اس کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔