وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
(برخلاف اس کے) جو لوگ اپنا مال (نمود و نمائش کے لیے نہیں، بلکہ) اللہ کی خوشنوی کی طلب میں اپنے دل کے جماؤ کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اونچی زمین پر اگایا ہوا باغ۔ اس پر پانی برسا تو دو چند پھل پھول پیدا ہوگئے اور اگر زور سے پانی نہ برسے، تو ہلکی بوندیں بھی اسے شاداب کردینے کے لیے کافی ہیں ! اور یاد رکھو تم جو کچھ بھی کرتے ہو، اللہ کی نظر سے پوشیدہ نہیں
[٣٨١]ربوہ کالغوی مفہوم:۔ ربوۃ ربو سے مشتق ہے جس کا معنی بڑھنا اور پھلنا پھولنا ہے اور ربوۃ سے مراد ایسی زمین ہے جس کی سطح عام زمین سے قدرے بلند ہو اور قدرے نرم ہو۔ ایسی زمین عموماً سرسبز اور شاداب ہوتی ہے۔ پنجابی زبان میں اسے میرا زمین کہتے ہیں اور وابل یا زور دار بارش سے مراد انتہائی خلوص نیت سے اللہ کی رضا کے لیے اور اپنے دل کی پوری پوری خوشی سے مال خرچ کرنا ہے اور پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے جس میں یہ دونوں باتیں موجود تو ہوں، مگر اتنے اعلیٰ درجہ کی نہ ہوں۔ دونوں صورتوں میں اجر و ثواب تو ضرور ملے گا۔ مگر پہلی صورت میں جو اجر و ثواب ملے گا وہ پچھلی صورت سے بہرحال کئی گنا زیادہ ہوگا۔