أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
(اے پیغمبر) کیا تم نے اس شخص کی حالت پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے اس کے پروردگار کے بارے میں حجت کی تھی اور اس لیے حجت کی تھی کہ خدا نے اسے بادشاہت دے رکھی تھی؟ (یعنی تاج و تخت شاہی نے اس کے اندر ایسا گھمنڈ پیدا کردیا تھا کہ خدا کے بارے میں حجت کرنے لگا تھا) جب ابراہیم نے کہا، میرا پروردگار تو وہ ہے جو مخلوقات کو جلاتا (زندہ کرتا) ہے اور مارتا ہے، تو اس نے جواب میں کہا جلانے (زندہ کرنے والا) اور مارنے والا تو میں ہوں (جسے چاہوں ہلاک کردوں، جسے چاہوں بخش دوں)۔ اس پر ابراہیم نے کہا اچھا اگر ایسا ہی ہے تو اللہ سورج کو پورب کی طرف سے (زمین پر) طلوع کرتا ہے تم پچھم سے نکال دکھاؤ۔ یہ جواب سن کر وہ بادشاہ جس نے کفر کا شیوہ اختیار کیا تھا، ہکا بکا ہو کر رہ گیا (اور ابراہیم کے خلاف کچھ نہ کرسکا) اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ ظالموں پر (کامیابی و فلاح کی) راہ نہیں کھولتا
[٣٦٨]نمرود کی خدائی کس قسم کی تھی ؟ یہ شخص نمرود بادشاہ عراق تھا اور اس کا دارالخلافہ بابل تھا جہاں آج کل کوفہ آباد ہے خدائی کا دعویدار تھا یہ خود اور اس کی رعایا سب مشرک تھے۔ نمرود کی خدائی کس قسم کی تھی؟ یہ جاننے کے لیے تھوڑی سی تفصیل ضروری معلوم ہوتی ہے۔ شرک کی تین اقسام ہیں:۔ شرک کی قسمیں :شرک فی الربوبیت :۔ ایسا شرک عموماً کوئی بھی نہیں کرتا۔ مشرکین مکہ ہوں یا نمرود ہو یا فرعون ہو کسی سے بھی پوچھا جائے کہ یہ آسمان و زمین کس نے بنائے۔ زمین سے پیداوار کون اگاتا ہے۔ کائنات کو کس نے پیدا کیا اور شمس و قمر کا نظام چلانے والا کون ہے تو سب یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ البتہ ربوبیت کے منکر ضرور موجود رہے ہیں یعنی دہریہ قسم کے لوگ یا فلکیات کے ماہرین جو ساری کائنات کو مادہ کی بدلی ہوئی شکلیں اور ارتقائی پیداوار کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ دوسری قسم شرک فی الصفات ہے۔ آگے اس کی پھر دو قسمیں ہیں، ایک وہ جس کا تعلق مافوق الفطری اسباب سے ہوتا ہے۔ مثلاً دعائیں سننا اور انہیں قبول کرنا، حاجت روائی اور مشکل کشائی کسی کے رزق میں تنگی اور فراخی پیدا کرنا، بارش برسانا، کسی کو اولاد دینا وغیرہ وغیرہ، ایسا شرک عام پایا جاتا ہے۔ مشرکین مکہ کے ہوں یا عراق کے ہوں، مصر کے ہوں یا ہندوستان کے، انہوں نے ایسے کاموں کے لیے لاتعداد دیوی یا دیوتا بنا رکھے تھے اور مندرجہ بالا کام انہیں کے سپرد تھے اور ان کے بتوں اور مجسموں کی پوجا کی جاتی تھی۔ اس قسم کا شرک ہم مسلمانوں میں بھی عام پایا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے ہم نے امور اپنے پیروں فقیروں اور بزعم خود اولیاء اللہ کے سپرد کر رکھے ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ ہوچکے ہوں۔ جمہوریت میں شرک کی کون سی قسم پائی جاتی ہے؟ شرک کی تیسری قسم وہ ہے جس کا تعلق شرک فی الصفات کی دوسری قسم سے ہے اور وہ فطری اسباب سے ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر طاغوت یا طواغیت سے ہوتا ہے جس کا ذکر پچھلی آیت میں آیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اپنی حکمرانی تسلیم کرواتے ہیں۔ آج کی زبان میں اسے اقتدار اعلیٰ کہتے ہیں۔ نمرود بھی اس قسم کا خدا تھا اور فرعون بھی اور ان جیسے اور بھی کئی خدائی کے وعدے کرچکے اور کر رہے ہیں۔ پھر اقتدار اعلیٰ کی بھی دو قسمیں ہیں، قانونی اقتدار اعلیٰ اور سیاسی اقتدار اعلیٰ دونوں قسم کا یہ اقتدار اعلیٰ ایسے حکمرانوں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ہر لفظ قانون ہوتا ہے اور ان کے حکم کے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی اور ایسے ممالک جہاں آج کل جمہوریت رائج ہے وہاں بھی اکثر شرک کی یہ قسم پائی جاتی ہے۔ کیونکہ ان ملکوں میں سیاسی اقتدار اعلیٰ تو عوام کے پاس ہوتا ہے یعنی طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ وہی جسے چاہیں اپنی رائے سے نمائندہ یا حکمران بنا دیں اور قانونی اقتدار اعلیٰ اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے (یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے.......(جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ کوئی انسان یا کوئی ادارہ ہی ہو سکتاہے) جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے قانونی اور سیاسی مقتدر اعلیٰ کوئی فرد یا ادارہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسا مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جمہوری ممالک میں کوئی بڑی سے بڑی عدالت بھی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے سامنے دم نہیں مار سکتی۔ اس لحاظ سے نمرود کی خدائی اور جمہوریت کی خدائی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آزر کا تعارف:۔ نمرود ہی کے دربار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ شاہی مہنت تھا جو بت گر بھی تھا اور بت فروش بھی اور نمرود کے مقربین میں سے تھا۔ اسی بنا پر باپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو گھر سے نکالا تھا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان لوگوں کے بت توڑے تھے تو اسی باپ نے اپنے بیٹے کا مقدمہ نمرود کے دربار میں پیش کیا تھا۔ [٣٦٩]سیدنا ابراہیم اورنمرود کامکالمہ :۔ دربار میں پیشی ہوئی تو زیر بحث مسئلہ '' خدائی'' ہی کا تھا۔ دوران بحث حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے تو نمرود کہنے لگا کہ یہ دونوں کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ چنانچہ اس نے ایک بے قصور آدمی کو بلاوجہ قتل کروا دیا اور ایک ایسے قیدی کو جسے سزائے موت ہوچکی تھی آزاد کردیا۔ [٣٧٠] حضرت ابراہیم علیہ السلام نمردو کے اس کام کا یہ جواب دے سکتے تھے کہ جس شخص کو تو نے مروا ڈالا ہے اسے زندہ کر کے دکھا تو جانیں۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس میدان کو چھوڑ دیا اور ربوبیت کے میدان میں آ گئے اور کہا کہ میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا۔ اب چونکہ نمرود یہ سمجھتا تھا کہ کائنات کے نظام میں میرا کوئی دخل اور اختیار نہیں۔ لہٰذا وہ فوراً لاجواب ہوگیا۔ حالانکہ اگر وہ سوچتا تو کہہ سکتا تھا کہ اگر میں سورج کو مغرب سے نہیں نکال سکتا تو تم اپنے رب سے کہو کہ مغرب سے نکال کے دکھائے، اور اس صورت میں عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھلا بھی دیتے۔ مگر چونکہ نمرود کا پختہ عقیدہ تھا کہ کائنات کا نظام اللہ ہی چلاتا ہے اور وہ چاہے تو ایسا بھی کرسکتا ہے۔ لہٰذا سوائے خاموشی اور حیرانگی کے اس سے کچھ بھی بن نہ پڑا اس طرح ابراہیم علیہ السلام نے بھرے دربار میں نمرود پر یہ بات واضح کردی کہ میرا خدا یا معبود تو نہیں، بلکہ وہ معبود حقیقی ہے جس کا پوری کائنات میں تصرف و اختیار چلتا ہے اس مباحثہ میں لاجواب ہونے کے باوجود نمرود کو کسی قیمت پر بھی اپنے خدائی کے دعوے سے دستبردار ہونا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہدایت پر توجہ کرنا گوارا نہ ہوا اور جو لوگ گمراہی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہوں انہیں ہدایت کی راہ نصیب بھی نہیں ہوتی۔